نائیجیریا: بوکو حرام کا لیڈر محمد یوسف ہلاک
31 جولائی 2009حکام نے خیال ظاہر کیا ہے کہ محمد یوسف غالباً فرار ہونے کی کوشش کے دوران پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنا۔ نائیجیریا میں گذشتہ اتوار سے اب تک سیکیورٹی فورسز اور باغیوں کے درمیان جھڑپوں اور پُر تشدد واقعات میں کم از کم چھ سو افراد مارے گئے ہیں۔
اُنتالیس سالہ عسکریت پسند مبلغ کو اُس کے حامیوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان کئی روز کی خونریز جھڑپوں کے بعد جمعرات کو نائیجیریا کے شمال مشرقی شہر میڈُوگُوری کے ایک مکان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اِس علاقے کی پولیس کے اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل موسس انیگ بوڈے نے ریاستی ٹیلی وژن بی آر ٹی وی کو بتایا کہ محمد یوسف فرار ہونے کی ایک کوشش کے دوران سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا۔ موسس کے مطابق وہ اِس ہلاکت کی تصدیق کرتے ہیں اور محمد یوسف کی لاش بھی ابھی اُن کی تحویل میں ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک صحافی نے بتایا کہ اُس نے پولیس ہیڈ کوارٹرز میں محمد یوسف کی برہنہ اور گولیوں سے چھلنی لاش دیکھی ہے، جس کے ساتھ کوئی دو درجن مزید افراد کی لاشیں بھی پڑی تھیں، جنہیں شہر کے مختلف حصوں سے لایا گیا تھا۔ اِس سے پہلے ایک پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ گولیوں کا نشانہ بننے سے پہلے محمد یوسف نے رحم اور معافی کی اپیل کی تھی۔ اِس سے پہلے ریاستی ٹیلی وژن پر پولیس اہلکاروں کو لاش کے گرد کامیابی کا جشن مناتے دکھایا گیا تھا۔
نائیجیریا کے صدر یارا دُوا نے اِس فرقے کی کارروائیوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی غرض سے سخت کارروائی کے احکامات جاری کئے تھے، جن کے بعد سیکیورٹی فورسز نے اِس پانچ روزہ بغاوت کے خاتمے کے لئے شہر میڈُوگُوری میں اِس فرقے کے ہیڈکوارٹر پر دھاوا بول دیا تھا۔ اِس کارروائی کے دوران ہیڈکوارٹر پر پوری رات گولے برسائے جاتے رہے اور وہاں سے فرار ہونے کی کوشش کرنے والوں کو فائرنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ گروپ کے نائب سربراہ ابوبکر شیکائی کے ساتھ ساتھ کوئی دو سو پیروکار ہلاک کر دئے گئے جبکہ بوکو حرام کےسربراہ محمد یوسف کو کل جمعرات کو گرفتار کر لیا گیا۔ سیکیورٹی فورسز کی تازہ کارروائی کے بعد شہر میڈُوگُوری میں حالات معمول پر آ رہے ہیں اور کئی روز سے اپنے گھروں میں بند لوگ اب باہر نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔ کئی روزہ پُر تشدد واقعات کے نتیجے میں نائیجیریا کی چار ریاستوں میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد بھی اب اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔
شہر میڈُوگُوری میں طالبان کی طرز کے اِس گروپ کی سرگرمیاں سن 2002ء میں شروع ہوئی تھیں۔ اِس سے پہلے شمالی نائیجیریا میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے خواہاں اِس گروپ نے نائیجر کے ساتھ ملنے والی سرحد پر ایک کیمپ قائم کیا تھا، جہاں سے اِس کے ارکان پولیس پر حملے کرتے تھے۔ تشدد کی تازہ لہر گذشتہ اتوار کر شروع ہوئی، جب بوکو حرام کے چھاپہ ماروں نے متعدد پولیس چوکیوں، کلیساؤں، جیلوں اور سرکاری عمارات کو حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ حکام کے مطابق اِس گروپ کے ارکان مختلف ناموں سے سن 1995ء سے سرگرم چلے آ رہے تھے۔