’نااہل قرار دینے کے جراثیم پاکستانی کشمیر بھی پہنچ گئے‘
11 اپریل 2023تنویر الیاس کی طرف سے معافی کی استدعا کو بھی مسترد کر دیا گیا اور انہیں آنا فانا گھر کا راستہ دکھایا گیا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو ایک غیر منتخب عدالت نے اس طرح عہدے سے فارغ کیا ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستانی عدالتوں سے اٹھنے والے توہین عدالت کے جراثیم اب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں، جو ایک خطرناک رجحان ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کی وجہ سے ہی وزارت عظمیٰ کے عہدے سے فارغ کیا گیا تھا جب کہ ن لیگ کر رہنما نوازشریف کو بھی سپریم کورٹ نے آئین کی آرٹیکل 62 اور63 کی روشنی میں عہدے سے ہٹایا تھا اور انہیں تا حیات نا اہل قرار دیا تھا۔
سردار تنویر الیاس ایک میڈیا ٹاک میں عدالت اور ججوں کے خلاف مبینہ طور پر نازیبا زبان استعمال کی تھی۔ انہوں نے عدالت جانے سے بھی انکار کیا تھا۔
آج جب وہ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تو عدالت کی طرف سے ان سے کئی سوالات کیے گئے۔ انہوں نے اپنے جملوں پر معافی مانگی لیکن ہائی کورٹ نے ان کی اس معافی کو مسترد کر دیا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں نے ہی سردار تنویر الیاس کے عدلیہ مخالف بیانات کا نوٹس لیا تھا۔
خطرناک رجحان
متنازعہ علاقے کے سیاست دان اس رجحان کو خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی نے کہنا ہے کہ سردار تنویر الیاس سے بہت سارے سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن اس طرح کسی منتخب وزیراعظم کو عدالتوں کے ذریعے نکلوانے کا عمل بہت خطرناک ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ عمل پاکستان سے شروع ہوا، جہاں دو منتخب وزرائے اعظم اور کچھ اراکین پارلیمنٹ کو عدالتوں نے عہدوں سے ہٹایا۔ اب یہ جراثیم ہمارے علاقے میں بھی آ گئے ہیں، جس کا اس خطے کی سیاست پر بہت گہرا اثر ہو گا۔‘‘
قابلیت اپنی جگہ مسلمانی اپنی جگہ
بھارت کی پاکستانی کشمیر میں ایک راہداری کھولنے کی کوشش
ڈاکٹر توقیر گیلانی کے مطابق، "ابھی یہ عمل شروع ہوا ہے اور مستقبل میں بھی میں اگر طاقت ور وزیر اعظم سے کوئی شکایت ہو گی تو وہ عدالتوں کے ذریعے فارغ کروا دیے جائیں گے۔‘‘
متنازعہ علاقے کی مبصرین کا خیال ہے کہ صدر سردار تنویر الیاس کا طرز حکمرانی بہت اچھا نہیں رہا، جس کی وجہ سے افسر شاہی میں کئی لوگ انہیں سخت ناپسند کرتے ہیں۔ وہ مختلف تنازعات کی زد میں بھی رہے ہیں۔
ڈاکٹر توقیر گیلانی کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کی طاقتور اشرفیہ سردار تنویر الیاس کے خلاف تھی، ''اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سردار تنویر الیاس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ انتہائی بدتمیز آدمی ہیں، جنہوں نے افسر شاہی اور سیاستدانوں کو گالیاں دی ہیں۔ طاقتور حلقے بھی ان سے ناراض تھے لیکن سیاستدانوں کو ہٹانے کا طریقہ صرف جمہوری ہونا چاہیے۔‘‘
خطے کا آئین مختلف ہے
کئی مبصرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومت یا وزیر اعظم کو ہٹانے کا طریقہ کار بالکل مختلف ہے، جس میں عدالتوں کی کوئی مداخلت نہیں ہو سکتی ہے۔ یونائٹیڈ کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے چیئرمین سردار شوکت علی کا کہنا ہے کہ اس متنازعہ علاقے کے آئین کی روشنی میں وزیر اعظم کو اس طرح فارغ نہیں کیا جا سکتا۔
شوکت علی کشمیری کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی، نون لیگ اور دوسری جماعتوں کو اس پر شادیانے نہیں بجانے چاہیے، ''اس عدالتی فیصلے سے اب حکومتوں کی تبدیلی کا راستہ آزاد کشمیر میں کھل گیا ہے۔ کل کوئی بھی وزیر اعظم اگر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جائے گا، تو اسٹیبلشمنٹ عدالتوں کے ذریعے اسے فارغ کروا دے گی۔‘‘
پاکستانی سیاست پر ممکنہ اثر
خیال کیا جاتا ہے کہ اس عدالتی فیصلے کا نہ صرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سیاست پر اثر ہو گا بلکہ اس سے پاکستانی سیاست بھی متاثر ہو سکتی ہے، جہاں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت پہلے ہی یہ اشارے دے چکی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرے گی جس میں حکومت کو کہا گیا ہے کہ وہ پنجاب میں انتخابات کے لیے فنڈز اور سکیورٹی مہیا کرنے کے انتظامات کرے۔
کشمیر: پاکستانی میڈیا سے بات کرنے پر حریت رہنما گرفتار
پاکستان کے زير انتظام کشمیر میں اليکشن: بھارت کی نکتہ چینی
وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر عدالت چاہے تو پوری کابینہ کو نااہل قرار دے دے۔ امکان ہے کہ اگر سردار تنویر الیاس سپریم کورٹ میں اپیل کرتے ہیں اوراگر سپریم کورٹ بھی ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتی ہے، تو پاکستان تحریک انصاف پاکستانی سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالے گی کہ وہ حکومت کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس لے اور وزیراعظم شہباز شریف کو نااہل کرے۔
پاکستان کے الیکشن کمیشن نے آج سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت نے اسے اکیس ارب روپے پنجاب کے انتخابات کے لیے نہیں دیے ہیں۔ اس تحریری جواب کے بعد ممکنہ طور پر پی ٹی آئی توہین عدالت کے مطالبے پر مزید زور دے گی۔