نشتر آباد میں فلم اور موسیقی کے بازار میں بم دھماکہ
20 ستمبر 2011فوری طور پر کسی نے اس دہشت گردی کی ذمہ داری قبول نہیں کی البتہ عمومی خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ یہ کارروائی طالبان عسکریت پسندوں نے کی ہے۔ سینئر صوبائی وزیر بشیر بلور نے مارے جانے والے شہریوں کی تعداد کی تصدیق کر دی ہے۔ حکام کے مطابق ایک موٹر سائیکل میں بم نصب کر کے اُسے نشتر آباد کے علاقے میں قائم سی ڈی مارکیٹ کے اندر کھڑا کر دیا گیا تھا۔
بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکار حکم خان کے مطابق اس موٹر سائیکل میں کم از کم 10 کلو وزنی بارودی مواد چھپایا گیا تھا اور پھر ایک ریموٹ کنٹرول کی مدد سے اُس میں دھماکہ کیا گیا۔ پشاور کی شہری پولیس کے سربراہ امتیاز الطاف کے بقول بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ جی ٹی روڈ پر واقع یہ سی ڈی مارکیٹ ہی دہشت گردوں کا ہدف تھی۔ مارے جانے والوں میں ایک خاتون بھی شامل ہے جبکہ زخمیوں میں سے بعض کی حالت نازک بیان کی جا رہی ہے۔
دھماکے کی وجہ سے بیس سے زائد دکانوں اور پارکنگ میں کھڑی کئی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بتایا جا رہا ہے کہ جس وقت یہ دھماکہ ہوا، بازار میں خاصی بھیڑ تھی اور سڑک پر بھی ٹریفک رواں دواں تھا۔
نشتر آباد کی اس مارکیٹ کو اس سے قبل بھی اس طرز کے حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے البتہ سوات اور دیگر علاقوں میں طالبان کے اثر و رسوخ میں کمی کے بعد اس طرز کی وارداتوں میں گزشتہ کچھ عرصے کے دوران کمی دیکھی جا رہی تھی۔
پشاور کے اس حملے سے قبل پیر کو علی الصبح ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک کار بم حملے میں آٹھ افراد مارے گئے۔ سندھ صوبے کے دارالحکومت میں کی گئی اس دہشت گردی کا نشانہ پولیس کی کرائم انویسٹی گیشن برانچ کے ایک عہدیدار بتائے جا رہے ہیں جو حملے میں محفوظ رہے۔ اسلم خان المعروف چوہدری اسلم نامی اس عہدیدار کا کہنا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کی ان ’بزدلانہ کارروائیوں‘ سے خوفزدہ ہونے والے نہیں۔
خبر رساں اے ایف پی کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں 2007ء کے لال مسجد آپریشن کے بعد سے قریب 4700 شہری طالبان اور القاعدہ کے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امجد علی