دہلی: نوکر شاہی میں جامعہ ملّیہ کے جہادیوں کی دراندازی
28 اگست 2020بھارتی حکومت کی وزارت تعلیم کی تازہ درجہ بندی کے مطابق ملک کی تمام سینٹرل یونیورسٹیوں میں جامعہ ملیہ اسلامیہ تعلیمی معیار کے اعتبار سے اوّل نمبر پر ہے۔ یونیورسٹی نے گزشتہ روز بھارتی حکومت کے نام اپنے خط میں سخت گیر ہندو تنظیموں سے وابستہ ایک نیوز چینل، 'سدرشن' اور اس کے ایڈیٹر انچیف سریش چوہانکے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس چینل کے جامعہ سے متعلق ایک پروگرام کے پرمو(اشتہار) سے ادارے کی شبیہہ خراب ہورہی ہے۔
ٹی وی چینل کے ایڈیٹر چوہانکے نے 26 اگست کو جامعہ سے متعلق ایک پروگرام ''یو پی ایس سی جہاد'' کا ٹریلر اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر شیئر کرتے ہوئے یہ دعوی کیا تھا کہ وہ اس کے ذریعے 'یونین پبلک سروس کمیشن' کے امتحان کی تیاری کرانے والے جامعہ کے ادارے 'ریزیڈینشیئل کوچنگ اکیڈمی' (آر سی اے) کا پردہ فاش کریں گے۔ انہوں نے اپنے پرمو میں مسلم طلبہ کے یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کو نوکر شاہی میں جہادیوں کی بھرتی کرنے کی سازش قرار دیا اور اس برس کامیاب ہونے والے ایسے تمام امیدواروں کو 'جامعہ کے جہادی' بتایا۔
جامعہ نے اسی کے خلاف وزارت تعلیم سے شکایت درج کی ہے اور چینل کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یونیورسٹی کے پی آر او احمد عظیم نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں حکومت کو ایک مکتوب کے ذریعے تمام تفصیلات سے آگاہ کیا گیا ہے اور، ''ہم نے مناسب کارروائی کرنے کو کہا ہے۔ اس ویڈیو میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ صرف جامعہ ہی نہیں بلکہ حکومتی ادارے یو پی ایس سی کو بھی نشانہ بناتی ہے۔ اس میں ایک خاص طبقے کو بھی ٹارگیٹ کیا گیا ہے۔ یہ ملک کے سماجی تانے بانے کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہے۔''
ان کا کہنا تھا کہ جامعہ انسٹیٹیوٹ کے سول سروسز کے امتحانات میں کامیاب ہونے والے پچاس فیصد سے زیادہ طلبہ ہندو ہوتے ہیں اس لیے 'سدرشن چینل‘ کا الزام سرا سر غلط ہے اور ادارے کی شبیہہ کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کس طرح کی کارروائی ہو یہ اصولی طور حکومت کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور ادارہ بذات خود ایسا کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
تاہم جامعہ ٹیچرس ایسوسی ایشن نے اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس نے مذکرہ چینل اور ایڈیٹر کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہے۔ اساتذہ کی انجمن کے صدر پرفیسر ماجد جمیل نے ڈی ڈبلیو اردو سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ ٹی وی پروگرام جمعہ 28 فروری کی شام کو نشر ہونا ہے اور ''ہم نے اسے رکوانے کے لیے مختلف وزارتوں کو خط لکھا ہے۔ ایف آئی آر تو پہلے ہی ہوچکی ہے اورعدالت میں بھی عرضی دائر کرنے کی تیاری مکمل ہے۔''
احمد عظیم نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ٹیچرس ایسو سی ایشن کے علاوہ جامعہ کے قدیم طلبہ کی انجمنوں نے بھی کیس فائل کرنے کو کہا ہے جبکہ یونیورسٹی کے ایک پرانے طالب علم اور سرکردہ وکیل نے تو سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے۔
اس دوران انڈین پبلک سروسز کی ایسوسی ایشن نے بھی سدرشن ٹی وی چینل کے ان بیانات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں ادارے نے کہا، ''ہم اس طرح کی کمیونل اور غیر ذمہ دارنہ صحافت کی مذمت کرتے ہیں۔''
جامعہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر نے بھی میڈیا سے بات چیت میں اس پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بار مقابلہ جاتی امتحان میں جامعہ کے جو 30 طلبہ کامیاب ہوئے اس میں 16 مسلم اور 14غیرمسلم ہیں۔ ''چونکہ انہوں نے سبھی کو جہادی کہا ہے، تواس کا مطلب 16 مسلم اور 14 غیر مسلم جہادی ہوئے۔ گویا بھارت نے اب جہادیوں کو بھی اب ایک نئی سیکولرشناخت دیدی ہے۔''
بھارتی حکومت تعلیمی معیار کے حساب سے یونیورسٹیز کی درجہ بندی کرتی اور اس فہرست میں جامعہ نے سب سے باوقار یونیورسٹی جواہر لال نہرویونیورسٹی نئی دہلی کو بھی پیچھے چھوڑتے ہوئے پہلا مقام حاصل کر لیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فہرست میں پہلی چار وہ یونیورسٹیز ہیں جن پر حکمراں جماعت بی جے پی اور سخت گیر ہندو تنظیمیں آئے دن طرح طرح کے الزامات عائد کرتی رہتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک کا مرکز ہونے کی وجہ سے متنازعہ وجوہات کے سبب کافی دنوں سے میڈیا کی توجہ کا مرکز رہی ہے تاہم رینکنگ میں اول نمبر پر پہنچنے کی وجہ سے میڈیا کے ایک خاص طبقے نے اس پر بہت اچھے پروگرام کیے ہیں اور بہت کچھ لکھا گیا ہے جس کے سبب یہ اپنی مثبت شبیہ کے لیے سرخیوں میں ہے۔ یہی بات دائیں بازو کی سخت گیر ہندو تنظیموں کو راس نہیں آرہی ہے اور اسی لیے یہ سب کچھ دانستہ طور پر کیا جا رہا ہے۔
ایک سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ سدرشن ٹی وی وشوہندو پریشد اور آر ایس ایس جیسی ہندو تنظیموں کا پروردہ ہے اور یہ سب جامعہ کو بدنام کرنے کے لیے ایک منظم سازش کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ ''ایسا کچھ نہیں ہے کہ یہ ایک صحافی تک محدود ہے اس کی اسکرپٹ کا خاکہ دیگر اداروں نے تیار کیا ہے۔''