نکلنے کا کوئی راستہ نہیں: غزہ کے فلسطینیوں میں خوف بڑھتا ہوا
13 مئی 2021بدھ بارہ مئی کی رات اس اپارٹمنٹ بلڈنگ پر گرنے والے اسرائیلی بموں کے پھٹنے سے کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے، دروازے اکھڑ کر دور جا گرے تھے اور کنکریٹ کی دیواریں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اس طرح نیچے زمین پر جا گریں کہ ان کا ملبہ دور دور تک جا گرا تھا۔ ام ماجد الرئیس چیخ رہی تھیں اور اس کوشش میں تھیں کہ ان کے بچے محفوظ رہیں۔
غزہ پر اسرائیلی حملوں کا سلسلہ جاری، درجنوں فلسطینی ہلاک
غزہ پٹی کے فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین موجودہ خونریزی 2014ء کی جنگ کے بعد سے اب تک کی شدید ترین اور سب سے ہلاکت خیز کشیدگی ہے، جس میں انسانی جانوں کا ضیاع مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسے میں الرئیس خاندان کی طرح بہت سے دیگر فلسطینی کنبے بھی ایک بار پھر وہی سوال پوچھ رہے ہیں، جو وہ پہلے بھی پوچھتے رہے تھے: 'ہم کہاں جائیں؟‘‘
غزہ پٹی 'جیل کی طرح ہے‘
ام ماجد الرئیس اپنے فلیٹ والی عمارت پر اسرائیلی بمباری کے بعد اپنے ایک جاننے والے فلسطینی خاندان کے گھر عارضی طور پر پناہ لے چکی ہیں۔ انہوں نے جانے سے پہلے اپنے فلیٹ کے ایک کچھ کم تباہ ہونے والے کمرے کی ایک الماری سے چند کپڑے ایک تھیلے میں بھر کر ساتھ لے لیے تھے اور اپنے دو ٹین ایجر بیٹوں اور دونوں کم عمر بیٹیوں کو لے کر گھر سے نکل پڑی تھیں۔
انہوں نے بعد ازاں اپنے میزبان گھرانے کی رہائش گاہ سے ٹیلی فون پر نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''اسرائیلی فضائی حملے کسی بھی پیشگی وارننگ کے بغیر کیے گئے۔ یہ پورا علاقہ ہی ایک چھوٹی سی جگہ ہے۔ بالکل جیل کی طرح۔ آپ کہیں بھی چلے جائیں، آپ نشانے پر ہی ہوں گے۔‘‘
دو ملین کی آبادی والی ساحلی پٹی
غزہ پٹی تقریباﹰ دو ملین کی بہت گنجان آبادی والا ایک چھوٹا سا ساحلی علاقہ ہے، جہاں فضائی حملوں کی صورت میں تنبیہ کے لیے نا تو سائرن بجتے ہیں اور نا ہی وہاں کوئی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ اس تنازعے کے دوران گزشتہ برسوں میں اقوام متحدہ کی طرف سے بنائی گئی پناہ گاہوں پر بھی حملے کیے گئے تھے۔
غزہ پر اسرائیل بمباری، بچوں سمیت بیس افراد ہلاک
گزشتہ دو دنوں کے دوران غزہ پٹی کے علاقے میں اسرائیلی فضائی حملوں میں تین ایسی بڑی بڑی رہائشی عمارات کو منہدم کر دیا گیا، جو 'ہاؤسنگ ٹاورز‘ کہلاتی تھیں اور جن میں فلسطینی تنظیم حماس کے چند اہم دفاتر بھی تھے اور چند کاروباری اداروں کے بزنس آفس بھی۔ کچھ مقامی باشندوں کے مطابق ان ہاؤسنگ ٹاورز پر فضائی حملوں سے قبل اسرائیلی فوج نے چند تنبیہی فائر بھی کیے تھے، جن کا مقصد ان عمارات میں موجود افراد کو خوف زدہ کر کے وہاں سے نکلنے پر مجبور کرنا تھا۔
یروشلم: مسجد اقصٰی میں پرتشدد جھڑپیں، 180 افراد زخمی
درجنوں ہلاک شدگان میں بچے اور خواتین بھی
اسرائیلی جنگی طیاروں نے اس گنجان آباد علاقے میں بغیر کسی وارننگ کے کئی بلند و بالا رہائشی عمارات کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ عین اس علاقے کو نشانہ بنانے کی وجہ اسرائیل کا یہ الزام بنا کہ اسی علاقے میں فلسطینی عسکریت پسند رہتے تھے۔
اسرائیل سے مقبوضہ علاقوں میں بستیوں کی توسیع روکنے کا مطالبہ
غزہ میں پیر کے دن سے جمعرات تک مجموعی طور پر 65 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں 16 بچے بھی شامل ہیں۔ مرنے والوں میں عسکریت پسند بھی تھے اور عام شہری بھی۔ اس کے علاوہ اپارٹمنٹ بلڈنگ پر فضائی حملے میں بھی کم از کم دو خواتین اور کئی بچے ہلاک ہو گئے۔
ہسپتال میں متاثرین کے بیانات
ان حملوں کے بعد غزہ کے ایک ہسپتال میں بہت سے متاثرہ فلسطینیوں نے اپنے کئی تجربات بیان کیے کہ کس طرح انہوں نے تباہ شدہ عمارات کے ملبے سے اپنے پیاروں کی خون آلود لاشیں نکالیں۔ ایک فلسطینی خاتون نے بتایا کہ اس کا چار سالہ پوتا اور حاملہ بہو بدھ بارہ مئی کو اس وقت مارے گئے، جب اسرائیلی فضائیہ نے اپنے حملوں کے دوران ایک ایسی دو منزلہ عمارت کو بھی نشانہ بنایا، جس میں یہ خاتون اور اس کے اہل خانہ رہتے تھے۔
یروشلم: اسرائیل نے فلسطینیوں کے لیے دمشق گیٹ کھول دیا
غزہ کے اسی ہسپتال کے مردہ خانے میں سسکیاں لے لے کر روتی ہوئی ایک خاتون ام محمد الطلبانی نے بتایا، ''انہوں (اسرائیل) نے کسی بھی طرح کی وارننگ کے بغیر بمباری کی۔ ہمارے گھر میں تو بچوں کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔‘‘
اسرائیلی حکومت کا الزام
اسرائیلی حکومت ایک عرصے سے فلسطینی تنظیم حماس پر یہ الزام عائد کرتی آئی ہے کہ جب فلسطینی عسکریت پسند رہائشی علاقوں سے اسرائیل کی طرف راکٹ فائر کرتے ہیں، تو بعد میں اسرائیلی جوابی کارروائی سے بچنے کے لیے حماس کے شدت پسند عام انسانوں کو اپنے لیے ڈھال بنا لیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حماس اور دیگر فلسطینی شدت پسند تنظیموں نے اپنے کمانڈ سینٹر مختلف رہائشی عمارات میں قائم کر رکھے ہیں۔
یروشلم: رمضان میں جھڑپیں، 100 سے زائد فلسطینی زخمی
اسرائیل کا یہ الزام اپنی جگہ، لیکن 2014ء کی جنگ میں بھی اسرائیل کی اس حکمت عملی پر شدید تنقید کی گئی تھی، جس کے تحت اس نے تب بھی غزہ میں عام رہائشی عمارات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا۔
آج کئی سال بعد غزہ پٹی کے علاقے میں ایک بار پھر یہی ہو رہا ہے۔
غزہ کے شہریوں کا المیہ
غزہ کے شہریوں کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ وہ ماضی کی کسی بھی جنگ کی خوف ناکیوں کو بھلا بھی نہیں پاتے کہ ویسی ہی تباہی اور ہلاکتیں ایک بار پھر ان کے دورازوں پر دستک دینے لگتی ہیں۔ ان کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ وہ غزہ میں رہتے ہوئے کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
فلسطینی علاقوں میں ممکنہ اسرائیلی جنگی جرائم: عالمی عدالت میں تحقیقات کی راہ ہموار
اسرائیل بین الاقوامی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے، ہیومن رائٹس واچ
تکلیف کی بات یہ بھی ہے کہ وہ غزہ چھوڑ کر کہیں جا بھی نہیں سکتے۔ ان کے مصائب میں یہ حقیقت بھی اضافے کا سبب بنتی ہے کہ یہ چھوٹی سی اور بہت تنگ ساحلی پٹی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے۔
چودہ سال سے زمینی اور سمندری ناکہ بندی
اسرائیل اور مصر نے مل کر اس خطے کی ناکہ بندی اس وقت سے کر رکھی ہے، جب 2007ء میں وہاں فلسطینی تنظیم حماس کی حکومت بنی تھی۔ جہاں تک غزہ کی زمینی سرحدوں کی بات ہے، تو وہاں سینسرز والی باڑیں لگی ہوئی ہیں، کنکریٹ کی بہت اونچی اونچی دیواریں ہیں اور ایسی فولادی رکاوٹیں بھی جن کے باعث وہاں سے نکلنا ممکن ہی نہیں۔
اسرائیل نے ایٹمی پلانٹ پر حملہ کر کے بہت بُرا جوا کھیلا، ایران
جہاں تک غزہ کی سمندری حدود کا تعلق ہے تو اس کے بحیرہ روم سے جڑے ساحلوں کی بھی اسرائیل نے مسلسل کئی برسوں سے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ اسرائیلی بحریہ کی گشتی کشتیاں کسی بھی بحری جہاز یا کشتی کو غزہ کی بندرگاہ سے لے کر 16 سمندری میل تک پھیلتے ہوئے بحری علاقے میں داخل ہونے ہی نہیں دیتیں۔
م م / ک م (اے پی)