یورپی یونین رِیگا سمٹ، جغرافیائی سیاسی کھیل جاری
21 مئی 2015یورپی یونین کی اپنے ان چھ مشرقی یورپی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اس سے پہلے آخری سربراہ کانفرنس کوئی ڈیڑھ سال پہلے لیتھوانیا کے دارالحکومت ولنئس میں منعقد ہوئی تھی۔ اُسی کانفرنس کے موقع پر یہ ڈرامائی صورتِ حال دیکھنے میں آئی تھی کہ یوکرائن کے اُس وقت کے صدر وکٹور یانُوکووِچ نے یورپی یونین کے ساتھ ایسوسی ایشن کے معاہدے پر دستخط کرنے سے اچانک انکار کر دیا تھا اور یونین کی بجائے ماسکو اور صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھانا شروع کر دیے تھے۔
وکٹور یانُوکووِچ کے رخصت ہونے کے بعد یوکرائن میں یورپی یونین کی طرف جھکاؤ رکھنے والی حکومت برسرِاقتدار آئی، جسے ماسکو سے فاصلہ اختیار کرنے کی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ نہ صرف یہ کہ روس یوکرائن کے جزیرہ نما کریمیا کو جبراً اپنی عملداری میں شامل کر چکا ہے بلکہ یوکرائن کے روس کے ساتھ ملنے والے سرحدی علاقوں کا ایک بڑا حصہ تنازعے کی لپیٹ میں آ چکا ہے اور یہ ملک زبردست اقتصادی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔
اس بار کی سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھی روس نے وہ حد بتانے کی کوشش کی ہے، جہاں تک اُس کے ہمسایہ ممالک جا سکتے ہیں۔ روسی وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے روسی پارلیمان کے ایوانِ بالا کو بتایا:’’ہمارے ہمسایہ ممالک یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو جس طرح سے مستحکم بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم اُسے کسی المیے کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ ہم ان عوامل کو ایسے مثبت طریقے سے آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں کہ اِن سے وفاقِ روس کے مفادات متاثر نہ ہوں۔‘‘
جمعرات اکیس مئی کی شام رِیگا میں ایک عشائیے سے اس سمٹ کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس عشائیے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ جیسے یورپی یونین کے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ یوکرائن، بیلا روس، جارجیا، آرمینیا، آذربائیجان اور مولداویا سے تعلق رکھنے والے اُن کے ہم منصب یا پھر چوٹی کے نمائندے شریک ہیں۔ اس عشائیے میں روسی صدر پوٹن دور دور تک نہیں ہوں گے، یہ اور بات ہے کہ اس موقع پر ہونے والی بات چیت کا موضوع وہ ضرور ہوں گے۔
آہنی پردہ گرنے کے بعد سے بہت سی سابقہ کمیونسٹ ریاستیں ماسکو کے دائرہٴ اثر سے باہر آ گئیں، جن میں موجودہ سمٹ کی میزبان ریاست لیٹویا کے ساتھ ساتھ بالٹک کی دو دیگر ریاستیں ایسٹونیا اور لیتھوانیا بھی شامل ہیں۔ یہ تینوں سابق سوویت جمہوریائیں تھیں، جو اب یورپی یونین کے ساتھ ساتھ نیٹو کی بھی رکن بن چکی ہیں۔
اس سمٹ میں یورپی یونین کی کوشش ہو گی کہ وہ ان چھ مشرقی یورپی ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم بنائے۔ ان میں سے کچھ ممالک یقیناً توقع کر رہے ہوں گے کہ جلد یا بدیر اُنہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا جائے گا۔ ایسی ہی توقعات کے پیشِ نظر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ریگا کے لیے روانگی سے پہلے ایک بیان میں کہا کہ مشرقی ملکوں کے ساتھ پارٹنر شِپ کے جو سمجھوتے کیے جا رہے ہیں، اُن کا یونین میں توسیع سے کوئی تعلق نہیں ہے:’’ایسے میں ہمیں ایسی غلط توقعات پیدا نہیں کرنی چاہیں، جنہیں ہم بعد میں پورا نہ کر سکیں۔‘‘ میرکل نے کہا کہ ان مشرقی یورپی ممالک کو ابھی کئی چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں انصاف اور اقتصادیات کے نظاموں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ کرنا بھی شامل ہے۔
اس سمٹ سے کچھ ہی پہلے یورپی یونین نے جارجیا، مولداویا اور یوکرائن میں چھوٹے اور درمیانے سائز کے کاروباری اداروں کے لیے اگلے دَس برسوں کے دوران دو سو ملین یورو کی امداد فراہم کرنے کے وعدے کیے ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق اس امداد کے نتیجے میں ان تینوں ملکوں میں دو بلین یورو کی سرمایہ کاری ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
جمعرات کی شام ہی ریگا میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل آئندہ چند ہفتوں میں دیوالیہ ہو جانے کے خطرے سے دوچار یورپی ملک یونان کے وزیر ا عظم الیکسس سِپراس کے ساتھ قرضوں کے بحران پر بات چیت کرنے والی ہیں۔ جمعرات کی شب عشائیے کے بعد ہونے والی اس ملاقات کے موقع پر فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ بھی موجود ہوں گے۔