نہر سوئز میں کنٹینر شپ پر ’دہشت گردانہ حملے کی کوشش ناکام‘
1 ستمبر 2013قاہرہ سے آمدہ خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق نہر سوئز کے منتظم ادارے سوئز کینال اتھارٹی کے سربراہ وائس ایڈمرل مھاب ممیش کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہفتے کے روز کی جانے والی حملے کی اس کوشش کا مقصد اس آبی گزرگاہ کے راستے بحری آمد و رفت اور تجارتی مال برداری میں خلل ڈالنا تھا۔ جہاز رانی کی عالمی صنعت کے لیے نہر سوئز ایک کلیدی اہمیت کا حامل آبی راستہ ہے۔ اس آبی گزرگاہ کی حفاظت کے فرائض مصری مسلح افواج انجام دیتی ہیں۔
وائس ایڈمرل مھاب ممیش کی طرف سے جاری کردہ بیان میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس واقعے میں کس طرح کے حملے کی کوشش کی گئی۔ تاہم جہاز رانی کے شعبے سے وابستہ مقامی ذرائع نے نیوز ایجنسی روئٹرز کے ساتھ گفتگو میں شناخت ظاہر نہ کیے جانے کی شرط پر بتایا کہ کل ہفتے کے روز اس وقت دو طاقتور دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں تھیں، جب ایک کنٹینر شپ اس آبی راستے سے گزر رہا تھا۔
بعد میں ہفتے کی رات سوئز کینال اتھارٹی کی طرف سے مہیا کردہ دیگر تفصیلات میں بتایا گیا کہ اس ناکام حملے میں دہشت گرد عناصر میں سے ایک نے نہر سوئز میں بحری جہازوں کی آمد و رفت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جبکہ ایک دوسرے مبینہ دہشت گرد نے اس وقت وہاں سے گزرنے والے مال بردار بحری جہازوں میں سے ایک کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔
وائس ایڈمرل ممیش کے مطابق جس کنٹینر شپ کو ٹارگٹ منتخب کیا گیا، اس پر لاطینی امریکی ملک پاناما کا پرچم لہرا رہا تھا اور اس کا نام Cosco Asia ہے۔ بیان کے مطابق، ’’اس ناکام حملے میں اس بحری جہاز یا اس پر لدے ہوئے کنٹینرز کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔‘‘ وائس ایڈمرل ممیش نے کہا کہ نہر سوئز کے دونوں طرف سکیورٹی انتظامات مزید سخت بنائے جانے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
روئٹرز نے اس واقعے کے حوالے سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس ناکام دہشت گردانہ حملے کا مصر میں اسلام پسند صدر محمد مرسی کی تین جولائی کو ملکی فوج کے ہاتھوں معزولی سے کوئی تعلق ہے۔
محمد مرسی کی معزولی کے بعد ملک میں وسیع تر عوامی مظاہرے شروع ہو گئے تھے جو ابھی تک پوری طرح ختم نہیں ہوئے۔ ان احتجاجی مظاہروں اور ان کے شرکاء کے خلاف سکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں اب تک مجموعی طور پر ایک ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں، جن میں سے 100 سے زیادہ ملکی سکیورٹی اداروں کے ارکان تھے۔
اس کے علاوہ مصر میں پہلے منتخب اسلام پسند صدر کے طور پر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد سے عسکریت پسندوں کی طرف سے ملک کے لاقانونیت کے شکار شمالی سینائی کے علاقے میں بھی اب تک متعدد خونریز حملے کیے جا چکے ہیں۔