انسانی زندگی کی بقا کے لیے بنیادی انحصار اگر پانی پر کیا جاتا ہے تو اس کا مصرف صرف پینے کے لیے پانی نہیں ہوتا بلکہ اس پانی کے وسیلے اناج کا حصول بھی ہوتا ہے، جو اس کی بھوک کو مٹا سکے۔ اگر پانی ہو گا تو اس سے اس زمین پر کسی نہ کسی طرح کا اناج اگایا جانا ممکن ہو گا، تبھی تو ’جہاں پانی وہاں زندگی کا‘ مفہوم مکمل ہوتا ہے۔
معلوم تاریخ میں شعور کے کسی بھی مرحلے میں انسان کے لیے غذا کی اہمیت اپنی جگہ مسلم رہی ہے۔ جدید دور میں بھی ہر انسان روزگار کی تلاش میں ہوتا ہے تو اسے ''روزی روٹی‘‘ ہی سے تعبیر کرتا ہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ اگر اسے کم از کم دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو تو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا کس قدر مشکل ہو جاتا ہے۔
ایک روٹی کا متلاشی ایک لقمے کے لیے کس قدر مجبور ہو جاتا ہے کہ کبھی بھیک مانگنے تو کبھی چوری چکاری جیسے فعل تک جا پہنچتا ہے لیکن وہیں جب اسی انسان کو روٹی کی فراوانی ہوتی ہے تو اسے احساس نہیں رہتا کہ اس کی بے احتیاطی یا غفلت کی وجہ سے کتنی غذا خراب اور ضائع ہو رہی ہے۔
ایک طرف غذا کے عالمی سطح پر ضائع ہونے کا رجحان ہے تو دوسری طرف ہماری قومی وزارت پیداوار کے اعداد و شمار کے مطابق، ہمارے ہاں 26 فی صد خوراک ضائع ہو جاتی ہے، جس کی مالیت کوئی چار ارب ڈالر بنتی ہے!
یہ ہمارا ایک ایسا بیمار رویہ ہے کہ جس جانب توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ یہ شعور تو ہماری بنیادی تعلیم کا حصہ ہونا چاہیے کہ ہم کسی بھی مرحلے پر غذا کو ضائع کرنے کے مرتکب نہ ہوں۔ یہ تربیت بنیادی طور پر ہمارے گھر سے شروع ہوتی ہے کہ ہمیں بچپن ہی میں سکھایا جائے کہ ہم اپنی پلیٹ میں اتنا ہی کھانا نکالیں جتنا کھا سکیں۔
بدقسمتی سے ہماری یہ تربیت موجود نہیں، تبھی شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں کہ جیسے کئی دن کے فاقے سے ہوں یا انہیں دوبارہ کھانا ملے گا یا نہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنی پلیٹوں میں ضرورت سے کہیں زیادہ سالن نکال لاتے ہیں اور بہت سے نہایت بے رحمی سے اس کا آدھا کھانا چھوڑ کر اٹھ جاتے ہیں، بعد میں ان کا یہ جھوٹا کھانا کوئی نہیں کھاتا اور پھر یہ کچرے کے ڈھیر میں ڈال دیا جاتا ہے یا پھر اٹھا کر ایک کونے میں جانوروں اور پرندوں کے کھانے کے لیے ڈال دیا جاتا ہے۔
جب کہ اتنے کھانے سے بہ آسانی کسی ایک فرد کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے، گویا ایک فرد اپنا پیٹ بھر کر ایک بھوکے اور ضرورت مند فرد کا کھانا ضائع کر رہا ہے، جو نہایت افسوس اور شرم کی بات ہے۔
ہمارے ملک میں ایک طرف لوگ غربت کے مارے خود کشیاں کر رہے ہیں وہیں ہمارے ہوٹلوں اور ریستورانوں سے نکلنے والے بچے کچھے کھانوں کے بڑے بڑے تھیلے اس امر کی غمازی کر رہے ہیں کہ دولت کی فراوانی رکھنے والے خوراک کے حوالے سے کس قدر بے رحم واقع ہوئے ہیں۔ انہیں باہر کھانا کھا کر نکلتے ہوئے کبھی غربت زدہ وہ بچے دکھائی نہیں دیتے جو ان کے بچے ہوئے کھانوں کے ڈھیر سے اپنے شکم کی آگ بجھانے کا سامان کر رہے ہوتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے تقریبات میں ایسی ہدایات آویزاں کی جائیں کہ رزق ضائع نا کریں۔ ایسے حالات میں جہاں ہمارے ارد گرد لوگوں کے لیے اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے دھکیلنا روز بہ روز مشکل ہوتا جا رہا ہے، ہمارا خوراک ضائع کرنا کسی جرم سے کم نہیں ہے۔
خوراک ضائع کرنے سے روکنے کے لیے گھروں سے لے کر اسکولوں اور میڈیا تک ہر پلیٹ فارم پر مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ ہم کھانا کھانے کے آداب سیکھیں اور صرف اپنی بھوک مٹائیں اور اس دستر خوان سے خوراک تلف کرنے کے بہ جائے خلق خدا کی بھوک مٹانے کا اہتمام کریں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔