1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیوزی لینڈ کے کان کن ہلاک ہو چکے ہیں: پولیس

24 نومبر 2010

پائیک دریا کول مائن میں دوسرے زوردار دھماکے کے بعد پولیس نے پھنسے ہوئے انتیس کان کنوں کی ہلاکت کا یقین کر لیا ہے۔ اس مناسبت سے کان کنوں کے رشتہ دار بروقت امدادی کارروائی نہ کرنےپر خفگی کا اظہار کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/QH3T
کان میں سوراخ کرنے کا عملتصویر: picture-alliance/dpa

لاطینی امریکی ملک چلی کے کان کنوں کی ناقابل یقین بازیابی کے بعد نیوزی لینڈ کے انتیس کان کنوں کے بارے میں ایسے ہی اندازے لگائے جا رہے تھے، جوتمام غلط ثابت ہوئے۔ پائیک دریا کول مائن کے اندر ایک اور زور دار دھماکے نے پھنسے ہوئے تمام افراد کی زندگیوں پر مکمل تاریکی کی چادر پھیلا دی ہے۔ پولیس سے لے کر وزیر اعظم تک تمام حکام نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کردی ہے۔ نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم جان کی نے اس سانحے کو قومی المیہ قرار دیا اور کہا کہ کان کنوں کی موت پر ان کی ساری قوم سوگ میں ہے۔ جان کی جانب سے اس واقعہ کی فوری انکوائری کا حکم جاری کردیا گیا ہے۔

انتیس کان کن کی ہلاکتوں کی رپورٹ کے ساتھ ہی گزشتہ چھ دنوں سے بندھی امید بھی دم توڑ گئی ہے۔ ان کے بچاؤ کی امدادی سرگرمیوں کو کان کے اندر موجود زہریلی گیسوں کے خطرے کی وجہ سے شروع نہیں کیا جا سکا تھا۔ سولہ امدادی کان کن انتظامیہ کی جانب سے ہری جھنڈی کے منتظر رہے۔ انتظامیہ کا مؤقف تھا کہ زیر زمین کان کے اندر زہریلی گیسوں کاربن مونو آکسائیڈ اور میتھین کی بھاری مقدار کی موجودگی امدادی کارکنوں کے لئے جان لیوا ہو سکتی تھی۔

پائیک ریور کوئلے کی کان کے اندر کان کن تقریباً سوا دو کلو میٹر کی گہرائی پر تھے، جب جمعہ کی رات میتھین گیس کی وجہ سے زور دار دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں کان کے اندر جانے والے راستے کو گرنے والے ملبے نے بند کردیا۔ ان کان کنوں میں سب سے کم عمر سترہ جبکہ معمر ترین کان کن باسٹھ برس کا تھا۔ ان میں ایک نوجوان ایسا بھی تھا، جس کی یہ پہلی ملازمت تھی۔

China Grubenunglück Rettung von Bergleuten
چین کی ایک کوئلے کی کان سے ہلاک شدہ شخص کو باہر لایا جا رہا ہےتصویر: AP

امدادی کارروائیاں کرنے والوں کی جانب سے ٹیکنیکل تجزیہ کے بعد پہلے ہی دبے الفاظ میں کہہ دیا گیا تھا کہ کسی کان کن کے بچنے کی امید نہیں ہو سکتی، کیونکہ پہلے زوردار دھماکے کے بعد کان کے اندر گرتا ہوا ملبہ مشین گن کی گولیوں کی رفتار سے اڑا تھا۔ اس کے بعد کان کے اندر پائی جانے والی زہریلی گیسوں کی موجودگی کا مسلسل جائزہ لیا گیا۔

دوسری جانب ہلاک ہونے والے کان کنوں کے اہل خانہ اور دیگر رشتہ دار و دوست احباب امدادی کارروائیوں میں تساہلی پر خاصے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ پائیک ریور مائن کے قریب ہی ایک اور کوئلے کی کان میں گزشتہ ساٹھ برسوں سے آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ یہ آگ ایک دھماکے کے بعد لگی تھی اور اب تک اس پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ پائیک ریور مائن میں پہلے بھی زہریلی گیسوں کے باعث دھماکے ہونے سے ہلاکتیں ہو چکی ہیں، تاہم تازہ ترین واقعہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد گزشتہ 77 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں