وارسا میں نیٹو سمٹ پوٹن کے لیے اہم کیوں؟ تبصرہ
8 جولائی 2016اس موضوع پر جرمنی کے مؤقر روزنامے ’فرانکفرٹر الگمائنے سائٹُنگ‘ یا FAZ کے پیٹر شٹُرم ڈوئچے ویلے کے لیے ایک مہمان تبصرہ نگارکے طور پر لکھتے ہیں:
شکر ہے کہ یورپ کی دو دھڑوں میں تقسیم اور ان دھڑوں کے درمیان تصادم اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ آج اگر مغربی یورپ میں عام شہری خود کو کسی کی وجہ سے خطرے میں محسوس کرتے ہیں تو اس ’کسی‘ سے مراد یقینی طور پر وہ دہشت گرد ہیں، جو اسلام کے نام پر خونریزی کرتے ہیں۔
آج بہت سے نوجوان یورپی شہریوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ یہ تصور بھی کر سکیں کہ سرد جنگ کے دور میں اسی براعظم میں حالات کیسے ہوتے تھے۔ لیکن آج کے یورپ میں پولینڈ، لیتھوانیا اور لیٹویا کے نوجوانوں میں تو یہ شعور بخوبی پایا جاتا ہے کہ انہیں کسی طرح اپنے ایک بڑے ہمسایہ ملک روس کی طرف سے ممکنہ خطرات لاحق ہیں۔
آج جو کوئی بھی اس دنیا کو کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے، وہ یہ احساس بخوبی کر سکتا ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے روس اپنی یہ پوری کوشش کر رہا ہے کہ مشرقی یورپی ریاستوں میں اس کی بری ساکھ کسی طرح بہتر نہ ہو جائے۔
مختلف حالات و واقعات کے اس طویل سلسلے کی ایک کڑی 2008ء میں جارجیا کی مختصر جنگ بھی تھی، جس دوران روس نے جارجیا کے ریاستی علاقے کے ایک حصے کو اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ پھر اس وجہ سے تشویش اور بھی زیادہ ہو گئی کہ روس کو تو اپنے اس اقدام کے کسی بھی طرح کے سنگین نتائج کی کوئی پرواہ ہی نہیں تھی۔ پھر یوکرائن کے تنازعے کی وجہ سے حالات مزید خراب ہو گئے، جب روس نے اپنے فوجی اقدامات کے ساتھ پورے یوکرائن کو اس عدم استحکام سے دوچار کر دیا، جو ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
اس تناظر میں سابق سوویت یونین کی کئی ریاستون کا مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن بن جانا ان ملکوں کے عوام کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ نیٹو کی رکنیت ان ملکوں کو کسی حملے کی صورت میں اس اتحاد میں شامل تمام ریاستوں کی طرف سے مدد کی یقین دہانی کراتی ہے۔
اب کسی بھی جارحیت کے خلاف بر وقت امداد اور شانہ بشانہ کھڑے ہونے کی یہی یقین دہانی ان ملکوں کے لیے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے۔ اس لیے کہ بالٹک کی جمہوریائیں گزشتہ برسوں میں متعدد ایسے سائبر حملوں کا شکار ہو چکی ہیں، جن کا ماسکو سے آغاز اب ایک طے شدہ بات ہے۔
اس پس منظر میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں نیٹو کے سربراہان مملکت و حکومت کی کانفرنس کے شرکاء دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ آپس میں متحد ہیں اور کسی تقسیم کا شکار نہیں ہیں۔
اس پیغام کے پہلے قدرتی وصول کنندہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن ہی ہوں گے۔ لیکن ساتھ ہی نیٹو میں شامل مشرقی ریاستوں کے عوام بھی، جنہیں اس حوالے سے ایک نئی نفسیاتی یقین دہانی کی ضرورت ہے۔ اور جیسا کہ جرمن وزیر خارجہ نے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی کہا تھا، اس سے مراد فوجی طاقت کے ڈھکے چھپے حوالے کے ساتھ دی جانے والی کوئی دھمکی نہیں بلکہ یہ وہ واضح پیغام ہے، جس کا دیا جانا ضروری ہو چکا ہے۔