وانو آتو میں شہزادہ فلپ کا انتظار
22 اگست 2010اس ریاست کا نام وانُوآتُو ہے (Vanuatu)،جو جنوبی بحرا لکاہل کے علاقے کے 83 چھوٹے چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ سن 2009ء کی مردم شماری کے مطابق اس ’ملک‘ کی مجموعی آبادی صرف دولاکھ 3 ہزار تھی۔
جنوبی بحرالکاہل کی یہ ریاست ایک پارلیمانی جمہوریہ ہے جسے تیس سال قبل آزادی ملی تھی۔ یہاں کی کرنسی کا نام ’واتُو‘ ہے، ملکی دارالحکومت ’پورٹ وِلا‘ کہلاتا ہے اور اس ریاست کا مجموعی رقبہ صرف 12ہزار مربع کلومیٹر ہے۔
وانُوآتُوکے83 جزائر میں سے ایک Tanna Island بھی ہے، جہاں کے ایک دیہات میں زیادہ تر قدیم نسل کے وہ مقامی باشندے رہتے ہیں، جن کا طرز زندگی اور عقیدہ باقی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ تنّاآئی لینڈ کے ایک گاؤں’یااوہنانن‘Yaohnanen) میں مرد اورخواتین روایتی طور پر کوئی لباس نہیں پہنتے۔ وہ صرف پتوں سے اپنے جسم کے مخصوص حصے ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس گاؤں کے زیادہ تر لوگ جدید تہذیب سے ناواقف ہیں۔
وانُو آتُو کے اس گاؤں میں عام لوگوں کا خیال ہے کہ برطانوی ملکہ ایلیزابیتھ ثانی کے شوہر شہزادہ فلپ اسی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ اس گاؤں کے ایک 38 سالہ باسی سیکور ناتُوآن نے ابھی حال ہی میں ایک مترجم کی مدد سے فرانسیسی خبر ایجنسی کے ایک نامہ نگار کو بتایا کہ شہزادہ فلپ اُن کے اور اس گاؤں کے دیگر باشندوں کے دیوتا ہیں۔
''چند ہفتے پہلے جب شہزادہ فلپ 89برس کے ہو گئے تھے تو ہم نے کئی دنوں تک رقص کر کے بڑا جشن منایا تھا۔ اب اگلے سال وہ 90برس کے ہو جائیں گے۔ ہم نے اس کی تیاریاں ابھی سے شروع کر دی ہیں۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گاؤں میں بہت سے لوگ شہزادہ فلپ کے چند بوسیدہ اور بہت پرانے ہو چکے پورٹریٹ ہر وقت اپنے ساتھ لئے ہوتے ہیں۔ Sikor Natuanکے بقول موجودہ برطانوی ملکہ کے شوہر اور شہزادہ چارلس کے والد، پرنس فلپ نسلی طور پر یونان سے تعلق رکھتے ہیں مگر وہ اسی جزیرے پر ’تُوکو س میرا‘ نامی مقدس پہاڑ کی وادی میں پیدا ہوئے تھے۔
پرنس فلپ کے آباؤواجداد کا تعلق بھی اسی جزیرے سے تھا۔ وہ بچپن میں ہی شہزادی ایلیزابیتھ سے شادی کرنے لندن چلے گئے تھے اور آنے والے برسوں میں تنّا کے قدیم قبائلی باشندوں کے اس دیوتا کو پوری دنیا پر حکومت کرنا ہے۔
وانُوآتُو کی جزائر پر مشتمل ریاست میں ، جہاں آج بھی بہت سے مسائل جادو کے ذریعے حل کئے جاتے ہیں، پوست اور تمباکو کی جنگلی فصلیں ہر جگہ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ تنّا کے جزیرے پر مقامی باشندے شہزادہ فلپ کو اپنا دیوتا مانتے ہیں، لندن میں ملکہ ایلیزابیتھ ، بکنگھم پیلیس اور برطانوی حکومت بھی اصولی طور پر تو اس کا علم رکھتے ہیں مگر انہوں نے اس عقیدے کی حوصلہ افزائی یا حوصلہ شکنی کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کی وجہ قدیم مقامی باشندوں کی سوچ اور طرز زندگی کے احترام کا نظریہ ہے۔
برطانیہ میں سرکاری ذرائع کے مطابق ،انہیں یہ علم ہے کہ تنّا کے جزیرے کے قبائلی لوگوں میں عقیدے کے لحاظ سے ایسی ایک تحریک پائی جاتی ہے۔اس کی ایک بالواسطہ وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ شہزادہ فلپ نے 1971میں اس خطے کا ایک دورہ کیا تھا، جب اس علاقے کے مختلف حصے برطانیہ اور فرانس کی نوآبادیاں تھیں۔
قریب چار عشرے قبل یہ علاقہ New Hebrides کہلاتا تھا ۔ وہاں کئی نسلوں سے یہ کہانی سننے کو ملتی تھی کہ ایک روز ’’اس علاقے کا ایک کھویا ہوا بیٹا اس طرح واپس آئے گا کہ اس کی رنگت پیلی ہو چکی ہو گی‘‘۔
پھر 1971ء میں جب شہزادہ فلپ نے اس علاقے کا دورہ کیا تو ’’دیومالائی کہانی سچ ثابت ہو گئی‘‘ اور اس کے بعد سے Tannaکے قبائلی باشندے ’’فلپ کی دوبارہ واپسی کے انتظار‘‘ میں ہیں۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : شادی خان سیف