1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

190811 Konfliktrisiko Wasser

24 اگست 2011

اس سال بھی سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہولم میں ورلڈ واٹر ویک یا پانی کا عالمی ہفتہ منایا جا رہا ہے۔ اپنی نوعیت کے اس اکیس ویں اجتماع میں دُنیا کے 130 ممالک سے گئے ہوئے تقریباً 2500 ماہرین شرکت کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/12Mto

ہماری اس دھرتی پر جن چیزوں کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اُن میں سے ایک پانی بھی ہے، جسے ’نیلا سونا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ آبادی میں اضافے اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پانی کی قلت مختلف ممالک کے درمیان تنازعات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دریا مختلف بین الاقوامی سرحدوں کو کاٹتے ہوئے گزرتے ہیں۔ عالمی ادارے یونیسکو کی سن 2003ء کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دُنیا بھر میں پانی کے 263 ذرائع 145 ممالک سے ہو کر گزرتے ہیں، جن میں دُنیا کی تقریباً چالیس فیصد آبادی رہتی ہے۔

اکثر اوقات دریاؤں پر تعمیر کیے جانے ولے ڈیم تنازعات کی وجہ بنتے ہیں۔ وسطی ایشیا کے دو بڑے دریاؤں کے ساتھ ساتھ تقریباً سات ہزار کلومیٹر لمبا دریائے نیل بھی، جو بر اعظم افریقہ کا سب سے طویل دریا ہے، اِس خطّے کے مختلف ملکوں مثلاً مصر، سوڈان اور ایتھوپیا کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔

تقریباً سات ہزار کلومیٹر لمبا دریائے نیل بھی، جو بر اعظم افریقہ کا سب سے طویل دریا ہے، اِس خطّے کے مختلف ملکوں مثلاً مصر، سوڈان اور ایتھوپیا کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہے
تقریباً سات ہزار کلومیٹر لمبا دریائے نیل بھی، جو بر اعظم افریقہ کا سب سے طویل دریا ہے، اِس خطّے کے مختلف ملکوں مثلاً مصر، سوڈان اور ایتھوپیا کے درمیان وجہ نزاع بنا ہوا ہےتصویر: picture-alliance / dpa

اُدھر براعظم ایشیا میں پانی کے مسئلے پر دو ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں چین اور بھارت کے درمیان تنازعہ جنم لیتا نظر آ رہا ہے۔ اس حوالے سے نئی دہلی میں قائم ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ انیلیسس کے چینی امور کے ماہر جگر ناتھ پانڈا نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’دونوں ملکوں میں رائے عامہ نے پانی کے موضوع پر بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ لوگ اب جان گئے ہیں کہ آنے والے برسوں کا اہم ترین مسئلہ سرحدی جھگڑے یا علاقائی اور عالمی سطح پر چین یا بھارت کا کردار نہیں بلکہ پانی ہے۔‘‘

بلا شبہ چین بڑے بڑے بند باندھتے ہوئے اپنے جنوبی علاقوں سے پانی اپنے شمالی علاقوں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ بھارت کو شبہ ہے کہ چین کوہ ہمالیہ سے آنے والے پانی کا رُخ اپنی طرف موڑتے ہوئے اُس سے بھی استفادے کی کوشش میں ہے۔

جرمن دارالحکومت برلن مں قائم سائنس اور سیاست کے ادارے SWP میں پانی کے مسئلے پر تنازعات کے موضوع پر مرتب کی گئی ایک رپورٹ کے مصنفین میں شامل ماہر ٹوبیاز فان لوسوو کے خیال میں مستقبل قریب میں پانی کے مسئلے پر جنگوں کا امکان نہیں ہے۔ اس کی ایک وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں:’’اگر آپ کسی ڈیم پر بمباری کریں گے تو پانی کے بہاؤ کی سمت میں سیلاب کا بھی آپ ہی کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘‘

بھارت کو شبہ ہے کہ چین کوہ ہمالیہ سے آنے والے پانی کا رُخ اپنی طرف موڑتے ہوئے اُس سے بھی استفادے کی کوشش میں ہے
بھارت کو شبہ ہے کہ چین کوہ ہمالیہ سے آنے والے پانی کا رُخ اپنی طرف موڑتے ہوئے اُس سے بھی استفادے کی کوشش میں ہےتصویر: AP

اس طرح کے تنازعات کے امکانات پر بھی سویڈن میں جاری ورلڈ واٹر وِیک کے اجتماعات کے دوران تبادلہء خیال کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر سویڈن کی بین الاقوامی ترقیاتی تعاون کی وزیر Gunilla Carlsson نے بھی کہا کہ جیسے جیسے دُنیا کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے پانی کی قلت کا مسئلہ بھی زیادہ سے زیادہ سنگین شکل اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پوری دُنیا میں زیادہ سے زیادہ انسان دیہات سے شہروں کا رُخ کر رہے ہیں۔ ایسے میں پانی اور بہتر خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے پانی کے انتظام کے زیادہ مؤثر اور پائیدار طریقے تلاش کیے جانے چاہییں۔

امسالہ واٹر ویک کے دوران آئندہ چند مہینوں میں پانی کے موضوع پر مجوزہ دو بڑی کانفرنسوں کی تیاریاں بھی عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ اس سال نومبر میں یہاں جرمن شہر بون میں پانی، توانائی اور خوراک کے موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا جبکہ اگلے سال مارچ میں فرانس کا شہر مارسے واٹر فورم کے نام سے ایک اجتماع کا اہتمام کرے گا۔

رپورٹ: ماتھیاس فان ہائن / امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں