ورلڈ کپ کرکٹ، پاکستانی سٹے باز متحرک
23 فروری 2011ایک محتاط اندازے کے مطابق انگلینڈ اور ہالینڈ کے درمیان ہونے والے میچ میں ستر کروڑ کا جوا کھیلا گیا۔ اس مرتبہ سٹہ بازوں نے ایک نئی طرز کے جوئے کو مترادف کروایا ہے، جسے ’’فینسی جوا‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں بکی بھاؤ کھولتا ہے۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں فینسی طرز کا جوا خاصہ مقبول ہے، جس میں پانچ لاکھ روپے ایڈوانس جمع کروا کر کوئی بھی چھوٹا سٹے باز اپنے علاقے میں بک کھول سکتا ہے جبکہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے رمی کلبز بھی کرکٹ سٹہ بازوں کی توجہ کا خاص مرکز ہیں ۔
آسٹریلیا اور زمبابوے کے درمیان کھیلے جانے والے میچ پر اطلاعات کے مطابق صرف کراچی میں پچانوے کروڑ کا جوا کھیلا گیا۔ کراچی میں ان دنوں سٹہ کا بڑا مرکزگھاس منڈی ہے ۔ بکیز نے ان علاقوں میں چالیس ہزار روپے ماہانہ پر کمرے حاصل کئے ہیں، جہاں ٹیلی فون لائنز، بڑی اسکرین کے ٹی وی اور موبائلز پر بکیز کے کارندے بلا خوف و خطر میچ شروع ہونے سے قبل ٹیلی فون پر ممبئی سے بھاؤ لے کر کام شرو ع کردیتے ہیں اس دوران ان بکیز کا ٹیلی فون پر جنوبی افریقہ اور لاہور کے بکیوں سے رابطہ رہتا ہے۔ اس سارے کاروبار میں سب سے اہم بات شرط لگانے والوں اور بکیوں کے درمیان اعتماد ہے ۔
کراچی شہر کے پر رونق کاروباری علاقوں بزنس روڈ، کریم آباد، لیاقت آباد، کیماڑی، کھارادر، ڈیفنس اور کلفٹن میں پچاس سے زائد مقامات پر ورلڈ کپ کرکٹ میں سٹہ بازی کے لئے بک کھلی ہوئی ہیں جبکہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے بعض بروکر بھی اپنی رقم اور کاروبارکو وسعت دینے کے لئےبڑے پیمانے پر کروڑوں روپے کی شرطیں لگاتے ہیں ۔
کرکٹ میں سٹہ بازاری سے اگر دنیا میں کسی ٹیم کی سب سے زیادہ ساکھ متاثر ہوئی ہے، تو وہ پاکستان ہے۔ کئی پاکستانی کھلاڑیوں کے سٹہ بازوں سے رابطوں کی تفصیلات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ رہی سہی کسر ممبئی کی انڈرورلڈ نے پوری کر دی یوں اب سٹے بازی ایک صنعت کا درجہ اختیار کر گئی ہے ۔
سٹے کی بین الاقوامی مارکیٹ کا دائرہ، جہاں ایک جانب جنوبی افریقہ تک جا پہنچا ہے، وہیں دوسری جانب یہ مراکز ممبئی، لاہور اور لندن تک وسیع ہو چکے ہیں۔ لاہور کے ایک بکی کا کہنا ہے کہ ایک اچھے میچ میں کم از کم پانچ یا اس سے زائد کا جوا کھیلا جاتا ہے۔
ایک زمانے میں کراچی بکیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا مگر کراچی کے انڈرورلڈ کے ڈان شعیب خان کی طرف سے رمی کلب کے مالکان اور کھلاڑیوں پر دباؤ ڈال کر بھاری رقوم طلب کرنے کی وجہ سے سٹہ کی بڑی مارکیٹ لاہور منتقل ہو گئی ہے۔ سٹے بازوں کا کہنا ہے کہ کرکٹ کے سٹے میں دنیائے کرکٹ کے کون سے کھلاڑی ملوث ہیں اس راز پر سے کوئی کھلاڑی یا سٹے باز پردہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ جس نے بھی اس کاروبار میں دھوکا یا راز پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی، اس کا انجام صرف اور صرف موت پر اختتام پزیر ہوا ہے۔ پاکستان کے ایک نامور بکی حنیف کیڈ بری کا قتل اس کی واضح مثال ہے۔ کراچی میں کام کرنے والے بکی نے بتایا کہ ہر میچ میں سٹہ بازی کے لئے ریٹ ممبئی سے ملتا ہے جبکہ پاکستانی بکیز کی ایڈوانس رقم دبئی میں جمع ہوئی ہے، جس کے بعد وہ سٹہ کھیل سکتا ہے۔
رپورٹ : رفعت سعید، کراچی
ادارت : عدنان اسحاق