ولادیمیر پوٹن کی جنگ نے روس کا بزنس ماڈل تباہ کر دیا
5 جنوری 2023گزشتہ برس یعنی 2022 ء پر ایک نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُس سال کا آغاز گرچہ روس کی اہم ترین سرکاری کمپنیوں گازپروم اور روسنیفٹ کے لیے امید افزا انداز میں ہوا تھا تاہم یوکرین کے ساتھ جنگ شروع ہوتے ہی ان دونوں کمپنیوں کو شدید دھچکا پہنچا۔
یہ دونوں کمپنیاں روس کے سرکاری بجٹ میں غیر معمولی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان دونوں کمپنیوں کے لیے یورپ میں سب سے بڑی منڈی وفاقی جمہوریہ جرمنی رہی ہے۔
جرمنی کی نئی وفاقی حکومت نے جوہری توانائی کو مرحلہ وار ختم کرنے اور کوئلے کے ابتدائی مرحلے کے خاتمے کے فیصلے کے پیش نظر ملک کی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کے لیے گیس سے چلنے والے متعدد نئے پاور پلانٹس کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ اس طرح روسی کمپنی گازپروم کے لیے جرمنی میں گیس کی ترسیل غیر معمولی طور پر بڑھانے کا امکان پیدا ہوا۔ واضح رہے کہ جرمنی پہلے ہی دنیا بھر میں اس کی سب سے بڑی فروخت کی منڈی ہے اور اس یورپی ملک نے سال بہ سال تمام روسی پائپ لائن گیس کی برآمدات کا ایک چوتھائی حصہ اپنے ہاں برآمد کیا۔
اسی طرح حال ہی میں مکمل ہونے والی گیس پائپ لائن 'نارڈ اسٹریم ٹو‘ کی جرمنی میں تصدیق کیے جانے کے امکانات بھی تب روشن دکھائی دیے جب نئے جرمن چانسلر اولاف شوُلس نے اس پائپ لائن منصوبے کو'نجی شعبے کا منصوبہ‘ قرار دے دیا تھا۔
جرمن کمپنیوں میں روسی شراکت داری
روس اور یوکرین کی جنگ کے آغاز سے پہلے روسی کمپنی روسنفٹ جرمن شہر شؤوڈٹ میں قائم ریفائنری PCK میں اپنا شیئر 54 فیصد سے بڑھا کر 92 فیصد تک لانے والی تھی۔ یہ کمپنی کئی دہائیوں سے ڈروشبا پائپ لائن کے ذریعے پہنچنے والے روسی خام تیل کی پروسسنگ کا کام انجام دے رہی تھی۔ اسی کمپنی کے ذریعے جرمن دارالحکومت برلن ، مشرقی جرمنی کے زیادہ تر علاقوں اور برلن کے نئے ہوائی اڈے کو پٹرولیم مصنوعات فراہم کی جا رہی تھیں۔ روسی کمپنی کے شیئر میں واضح اضافے کی حتمی منظوری تاہم نئی جرمن حکومت کی طرف سے ملنا باقی تھی۔ لیکن سوشل ڈیموکریٹ جرمن چانسلر اولاف شوُلس کی حکومت کی طرف سے اس منظوری کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ یا اعتراض کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا تھا۔
روسی کمپنیوں کی تباہی
سال 2022 روسی کمپنی گازپروم کے لیے بہت بڑے دھچکے پر ختم ہوا۔ اب یہ کمپنی جرمنی کو اپنی ترسیل مکمل طور پر روکنے پر مجور ہے اور اس طرح اس کا خاتمہ نظر آ رہا ہے۔ ادھر جرمن حکومت نے اپنی جرمن ذیلی کمپنی 'گازپروم جرمانیہ‘ قدرتی گیس ذرمنی خیرہ کرنے کی بڑی بڑی تنصیبات کے ساتھ اس کمپنی کو قومیا رہی ہے اور اس طرح 'نورڈ اسٹریم ٹُو‘ پروجیکٹ آخر کار دم توڑ رہا ہے۔
جرمنی کے دو مائع گیس ٹرمینلز نے اس اثناء میں کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ آئندہ سال موسم سرما تک ان کی تعداد چھ ہو جائے گی۔ اس طرح جرمنی اب کبھی روس گیس پائپ لائن پر انحصار نہیں کرے گا۔ جرمن چانسلر اولاف شُولس بارہا اس امر کو دہرا چُکے ہیں کہ روس اب توانائی فراہم کرنے والا ایک قابل اعتماد ملک نہیں رہا۔
روسی یوکرائنی جنگ: پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے؟
تیل، گیس اور کوئلے کی پورپی مارکیٹ کا نقصان
روسی صدر ولادیمیر پوٹن دراصل ماضی میں ذاتی طور پر یورپی کاروباری ماڈل کی تعمیر اور اسے اپنانے کے لیے بہت فعال اور مستعد کردار ادا کرتے رہے تھے۔ تاہم یوکرین کے ساتھ جنگ کر کے انہوں نے بڑے مثبت اور عمدہ طریقے سے کام کرنے والے اس ماڈل کا اچانک خاتمہ کر دیا ہے۔
متعدد یورپی کمنیوں نے روس کو بالکل تنہا چھوڑ دیا ہے اور دیگر نے روسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری روک دی ہے۔ یہ تمام کمپنیاں یورپی یوین اور امریکہ کی طرف سے روس پر لگائی جانے والی پابندیوں کے زیر اثر ایسا کرنے پر مجوہر ہوئی ہیں۔
امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے لیے یوکرین کی جنگ انتہائی ناپسندیدہ امر ہے۔ دوسرا یہ کہ جنگ کے سبب روس میں کاروباری حالات نمایاں طور پر خراب ہو چُکے ہیں۔ اس طرح 2022 ء کے دوران روس نے اپنی معیشت کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل اپنی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی کھو دی۔
ماسکو کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ دھچکا یورپی یونین کی طرف سے روس سے سمندری راستے سے تیل کی ترسیل پر پابندی بنا ہے۔ اس اقدام کا ابھی مکمل اثر شروع نہیں ہوا ہے، کیونکہ یہ حال ہی میں یعنی 5 دسمبر کو نافذ ہوا کیوں کہ یورپی کمپنیوں کو دوسرے سپلائرز اور ٹرانسپورٹ روٹس پر جانے کے لیے وقت درکار تھا۔
روس میں پیسہ، وقت اور ہنرمند کارکنوں کی قلت
یورپی ،خاص طور سے جرمنتجارتی منڈی سے روس کا رابطہ مکمل طور پر ٹوٹ جانے کے سبب روسی گیس کی صنعت، جسے ہمیشہ کامیابی اور ترقی ہی ملتی رہی، اب شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے۔
روس اب تیل اور کوئلے کی برآمدات کا رُخ ایک مخصوص مقدار میں ایشیا کی طرف کرسکتا ہے تاہم اس کے لیے کہیں زیادہ کفایتی طریقہ یہ ہوگا کہ ماسکو روسی بالٹک سمندری بندرگاہوں سے اپنے ٹینکرز کو روٹرڈیم بھیجنا جاری رکھے، نہ کہ دور اور کافی فاصلے پر بھارت کی طرف۔
روس کے لیے تاہم ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گیس پائپ لائنیں، جو 50 سالوں سے مغربی سائبیریا سے خصوصی طور پر مغرب کی طرف بچھائی گئیں، ان کا رُخ اب مشرق کی طرف تبدیل کرنا۔
جبری فوجی سروس سے فرار، ہزاروں روسی جرمنی میں
کریملن گرچہ اعلان کر چُکا ہے کہ وہ مشرق میں گیس کی نئی پائپ لائنیں بچھائے گا، لیکن روس کو اس وقت بہت زیادہ ضرورت پیسے اور ہنرمند کارکنوں کی ہے جو اس کے پاس نہیں ہیں اور شاید اب اس کے پاس کافی وقت بھی نہیں کیونکہ یورپی سیلز مارکیٹ کا نقصان اب ماہ بہ ماہ زیادہ سے زیادہ نمایاں ہوتا جائے گا، ملک کے اپنے مالیاتی ذخائر جنگ میں جلتے رہیں گے، یہ بین الاقوامی کیپیٹل مارکیٹ سے کٹا ہی رہے گا۔
اس ملک میں پہلے ہی ہزارہا لوگ جنگی محاذ پر ہلاک ہو چکے ہیں، جو زندہ ہیں وہ معذور ہو چکے ہیں یا بیرون ملک فرار ہو گئے ہیں۔
(گورکوف آندرے)ک م/ ش ح