ویانا مذاکرات میں ایران کی شرکت، شامی اپوزیشن کا اعتراض
28 اکتوبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پینٹا گون کے حوالے سے بتایا ہے کہ شام اور عراق میں سرگرم انتہا پسند گروہ داعش کے خلاف فضائی حملوں میں تیزی لائی جائے۔ امریکی محمکہ دفاع کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کرنے کے لیے ان کے خلاف براہ راست زمینی کارروائی بھی ممکن ہے۔
دوسری طرف اس تنازعے کے حل کے لیے سفارتی محاذ پر بھی پیشرفت دیکھنے میں آئی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ شام میں قیام امن کے لیے ویانا میں منعقد کیے جانے والے مذاکرات کے نئے دور میں شامی صدر بشار الاسد کے حامی ملک ایران کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ شامی بحران کا سیاسی حل ڈھونڈنے کی خاطر رواں ہفتے ہی ان مذاکرات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام نے البتہ یہ نہیں بتایا ہے کہ ایران کو ان مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ طور پر کون مدعو کرے گا اور یہ کہ کیا ایران اس دعوت کو قبول کر لے گا یا نہیں۔ تاہم یہ امر اہم ہے کہ ایران کہہ چکا ہے کہ وہ شامی تنازعے کے سیاسی حل میں کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اسی تناظر میں ایران نے کہا ہے کہ وزیر خارجہ جواد ظریف ایک وفد کے ساتھ اس مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کے لیے ویانا جائیں گے۔
جمعہ تیس اکتوبر کو ویانا میں ہونے والے یہ مذاکرات شامی بحران کے حل کی کوششوں کے لیے انتہائی اہم خیال کیے جا رہے ہیں۔ ان مذاکرات کے دوران شامی خانہ جنگی کے اختتام اور وہاں ایک عبوری حکومت کے قیام پر بات چیت کی جائے گی۔ بتایا گیا ہے کہ اس عبوری حکومت سے بعد ازاں صدر بشار الاسد کے دور اقتدار کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
دوسری طرف شامی اپوزیشن نے کہا ہے کہ ویانا مذاکرات میں ایران کی شرکت سے امن عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ سریئن نینشل کولیشن کے نائب صدر ہاشم مروا نے ان مذاکرات میں ایران کی شرکت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے، ’’ویانا مذاکرات میں ایرانی شرکت اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دے گی کیونکہ تہران کا مقصد صدر بشار الاسد کو بچانا ہو گا۔‘‘ ایک عرب ٹیلی وژن سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ شام میں روسی عسکری مداخلت سے سیاسی حل میں پہلے سے ہی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں جبکہ ایران کو اگر ان مذاکرات میں مدعو کیا گیا تو یہ معاملہ مزید خراب ہو جائے گا۔
سفارتی کوششوں کے ساتھ ساتھ امریکی عسکری اتحاد نے شام اور عراق میں جہادیوں کے خلاف اپنی عسکری کارروائی میں تیزی لانے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے کہا ہے کہ اگر داعش کے ٹھکانوں کو ہدف بنائے جانے کا امکان ہوا تو ’براہ راست زمینی ایکشن‘ سے گریز نہیں کیا جائے گا۔
امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے داعش کے خلاف زمینی کارروائی کے لیے کوئی عہد نہیں کیا ہے۔ تاہم امریکی عسکری ماہرین کرد باغیوں کو تربیت فراہم کر رہے ہیں، جو شام میں ان جہادیوں کے خلاف زمینی عسکری کارروائی میں شامل ہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ عراق میں امریکا کے ساڑھے تین ہزار فوجی تعینات ہیں، جو عراقی سکیورٹٰی فورسز کو تریبت اور مشاورت فراہم کر رہے ہیں۔
شام میں مارچ 2011ء میں صدر بشار الاسد کے خلاف پرامن احتجاج شروع ہوا تھا جو بعدازاں خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا۔ اب تک اس تنازعے میں اقوام متحدہ کے مطابق ڈھائی لاکھ افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ شامی مہاجرین کا ایک سیلاب ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ کی طرف رواں دواں ہے۔ اس باعث یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔