ٹرمپ نے ایک بار پھر کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر دی
2 اگست 2019امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات یکم اگست کو صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران ایک بار پھر اپنی اس پیشکش کو دہرایا کہ وہ مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ دورہ واشنگٹن کے دوران امریکی صدر نے مہمان وزیر اعظم کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران یہ پیشکش کی تھی کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعے کی سب سے بڑی وجہ بننے والے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ثالثی کرنے کو تیار ہیں۔
22 جولائی کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں ٹرمپ نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس معاملے پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی ان سے مدد کی درخواست کر چکے ہیں۔
ان کے اس بیان کے فوری بعد بھارتی حکومت نے اس بات کی تردید کردی تھی کہ بھارتی وزیر اعظم نے ٹرمپ سے ایسا کوئی کردار ادا کرنے کی بات کی تھی۔
بھارتی وزارت خارجہ نے اپنا یہ موقف دہرایا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کا باہمی معاملہ ہے اور اس پر کبھی بات ہوئی بھی تو یہ صرف انہی دونوں ممالک کے درمیان ہو گی اور اس پر کسی تیسرے فریق کی ثالثی بھی قبول نہیں کی جائے گی۔
امریکی صدر نے جمعرات کے روز ایک بار پھر اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ایک رپورٹر کے ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ نے کہا، ''میں وزیر اعظم خان اور وزیر اعظم مودی سے مل چکا ہوں، وہ زبردست لوگ ہیں ... اگر وہ کسی کی ثالثی چاہیں تو میں یہ کردار ادا کر سکتا ہوں اور سچی بات یہ ہے کہ میں نے اس پر پاکستان سے بات کی ہے اور بھارت سے بات بھی کی ہے۔‘‘
رپورٹر کی طرف سے اس سوال کے جواب میں کہ وہ کشمیریوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں، ٹرمپ کا کہنا تھا، ''اگر میں کر سکتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ایسا چاہیں تو، میں لازمی طور پر اس میں اپنا کردار ادا کروں گا۔‘‘
دوسری طرف بھارت نے آج ایک مرتبہ پھر امریکی صدر کی کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش کو ایک بار پھر رد کیا ہے۔ بینکاک میں ایشیا سکیورٹی فورم کے حاشیے میں آج امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور ان کے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے درمیان ملاقات ہوئی جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایس جے شنکر کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو پر یہ واضح کر دیا ہے کہ اگر کشمیر کے معاملے پر کبھی بات ہوئی تو وہ صرف پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی ہو گی اور اس پر کسی کی ثالثی قبول نہیں کی جائے گی۔
خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت اس معاملے پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں اور یہی معاملہ خطے کے استحکام اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی سمجھا جاتا ہے۔