’’ٹرمپ کا خلائی فوج کا منصوبہ، علامتی سیاست ہے‘‘
14 اگست 2018ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار فابیان اشمٹ کہتے ہیں کہ بری، بحری، فضائی اور ساحلی محافظوں کے ساتھ ساتھ اب امریکی دستوں میں ایک خلائی فوج کا بھی اضافہ ہو جائے گا، جسے ’یوایس اسپیس کمانڈ‘ کا نام دیا جا رہا ہے۔ اس اعلان سے سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کے سٹار وارز پروگرام کی یاد تازہ ہو گئی۔
کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ ستاروں کی جنگ کے اس منصوبے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ شاید مغربی ممالک جلد ہی کسی سرکش ریاست کے جوہری حملے سے بچنے کے لیے خلا میں میزائل شکن نظام نصب کر دیں گے، ان میں چین اور روس بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ ہماری مواصلات، نگرانی اور نیویگیشن کے ڈھانچے کو تحفظ فراہم کرے گا۔ ساتھ ہی اس کے باعث سائبر حملوں سبے بھی بچا جا سکے گا۔
دوسری جانب ناقدین ہیں، جنہیں خدشہ ہے کہ اس طرح خلا فوجی چھاؤنی میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی خلائی مرکز ’آئی ایس ایس‘ میں جو مثالی عالمی تعاون اور اس مرکز میں سویلین مقاصد کے لیے جاری تحقیق کے بھی متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
فابیان اشمٹ کے مطابق نا تو ایک حلقے کی امیدیں اور نہ ہی دوسروں کے خدشات ٹرمپ کے اس فیصلے سے پورے ہو سکیں گے کیونکہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔
خلا پہلے ہی فوجی چھاؤنی بن چکی ہے
ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ ایک طویل عرصے سے خلائی مرکز میں تحقیق فوجی تعاون سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ راکٹ ٹیکنالوجی کی بنیاد فوجی تحقیق ہی ہے۔ اس کا آغاز نازی آڈولف ہٹلر کے نام نہاد سپر ہتھیار ’وی ٹو‘ کے ساتھ ہوا تھا، جو طویل فاصلے تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والا پہلا میزائل تھا۔
اس کے بعد راکٹ ٹیکنالوجی اور انجینیئرز فوری طور پر سابقہ سوویت یونین چلے گئے۔ امریکا نے بھی ’وی ٹو‘ ٹیکنالوجی بنانے والوں سے فائدہ اٹھایا۔ ان میں سے سب سے مشہور ویرنہر فان براؤن تھے۔ دوسری جانب آج بھی سیٹیلائٹ نیویگیشن کو ہنگامی طور پر آن آف کرنے کا بٹن فوج کے ہاتھ میں ہی ہے۔
پرانی وائن نئی بوتل میں
آج بھی خلا میں تمام تر امریکی سرگرمیاں ملکی فضائیہ کی قیادت میں جاری ہیں تاہم اس کا کچھ حصہ نیوی کے پاس بھی ہے۔ اس کے علاوہ امریکی فضائیہ زمینی مدار میں اپنے عسکری بنیادی ڈھانچے کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت استعمال کر رہی ہے۔ فابیان اشمٹ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ اب مزید کیا تبدیلی آ سکتی ہے، کیا ’یو ایس اسپیس کمانڈ‘ یہ نئی ذمہ داری ایئر فورس سے لے لی گی۔
امریکی خلائی مرکز ناسا، جوسویلین مقاصد کے لیے جاری تحقیقی سرگرمیوں کا ذمہ دار ادارہ ہے، اپنا کام پہلے کی طرح جاری رکھے گا۔ ساتھ ہی بین الاقوامی تعاون آگے بھی اسی ادارے کے توسط سے جاری رہے گا۔
اشمٹ کے بقول فوری طور پر کوئی نیا ’اسٹار وارز پروگرام ‘ شروع نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ میزائل شکن نظام صرف کم اور درمیانی درجے میزائلوں کو فضا میں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فی الحال ایسی کوئی بھی ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے، جو بین البراعظمی میزائلوں کے خطرے کو ٹال سکے۔
’یو ایس اسپیس کمانڈ‘ کا منصوبہ تاہم اس صورتحال کو بدل نہیں سکے گا۔ تاہم ایک چیز جو لازماً فوری طور پر بدلے گی وہ ’یو ایس اسپیس کمانڈ‘ اور ایئر فورس کے مابین دائرہ اختیار کار کے امور ہوں گے اور اس کے ساتھ اخراجات میں نمایاں اضافہ ہو گا۔