ٹرمپ کا دعویٰ، داعش کو شکست: یورپ کا جواب، ایسا تو نہیں ہوا
20 دسمبر 2018امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کل بدھ انیس دسمبر کو یکدم یہ اعلان کر دیا تھا کہ خانہ جنگی کی شکار مشرق وسطیٰ کی ریاست شام میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو شکست دے دی گئی ہے اور شام میں تعینات امریکی دستوں کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ واپس اپنے وطن کو لوٹیں۔
اس بارے میں صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں یہ بھی لکھا تھا، ’’شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو شکست دے دی گئی ہے۔ اب ہمارے فوجی ہیرو اس ملک سے واپس آ سکتے ہیں۔‘‘
امریکی صدر کے اس غیر متوقع اعلان پر خود امریکا میں بھی وسیع تر حلقوں کی طرف سے نہ صرف تنقید کی گئی تھی بلکہ ٹرمپ کی اپنی ریپبلکن پارٹی کے کئی سرکردہ ارکان کانگریس نے بھی واضح الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا کہ ٹرمپ کا یہ اعلان ایک خوفناک غلطی ہے، جس کے امریکا اور اس کی سلامتی کے لیے تباہ کن نتائج اگلے کئی برسوں تک سامنے آتے رہیں گے۔
امریکی صدر نے داعش کی ناکامی کے اعلان کے ساتھ ہی ٹوئٹر پر کل یہ بھی لکھا تھا کہ شام سے امریکی دستوں کی واپسی کا عمل شروع بھی ہو گیا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق یہ انخلاء اگلے 60 سے لے کر 100 دنوں کے اندر اندر مکمل ہو جائے گا۔ شام میں تعینات امریکی دستوں کی تعداد دو ہزار کے قریب ہے اور وہ وہاں صدر بشار الاسد کی مخالف شامی اپوزیشن کے جنگجوؤں کی عسکری مدد، تربیت اور مشاورت کر رہے ہیں۔
لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے اب سیاسی اور سفارتی سطح پر ایک نئی مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ واشنگٹن کے تین بڑے یورپی اتحادی ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے اب ٹرمپ کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے یہ کہہ دیا ہے کہ شام میں داعش کو شکست تو ابھی ہوئی ہی نہیں۔
ان تینوں یورپی طاقتوں نے سفارتی زبان میں یہ موقف ظاہر کیا ہے کہ شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کا خاتمہ ابھی نہیں ہوا۔
اس بارے میں جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے جمعرات کے روز کہا، ’’صدر ٹرمپ کا یہ اچانک اعلان کہ شام میں داعش کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، امریکی موقف میں ایسا اچانک موڑ ہے، جس نے داعش کے خلاف جنگ کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ نے یہ بات اس پس منظر میں بھی کہی کہ شام میں اس وقت جرمنی کے قریب بارہ سو فوجی اور غیر فوجی اہلکار تعینات ہیں، جو وہاں داعش کے خلاف جنگ میں لڑاکا طیاروں میں ایندھن بھرنے، فوجی تربیت اور نیول ٹریننگ میں حصہ لے رہے ہیں۔
اسی طرح فرانسیسی خاتون وزیر دفاع فلورنس پارلی نے کہا کہ شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو بہت کمزور تو کر دیا گیا ہے لیکن اس شدت پسند تنظیم کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ پارلی نے کہا کہ شام میں اس دہشت گرد تنظیم کے عسکری طور پر زیر اثر چھوٹے چھوٹے باقی ماندہ علاقوں کا بازیاب کرایا جانا ابھی باقی ہے۔
دوسری طرف برطانیہ نے، جو داعش کے خلاف بین الاقوامی عسکری اتحاد میں امریکا کے ساتھ اشتراک عمل سے فضائی حملوں میں بھی حصہ لیتا رہا ہے، کہا ہے کہ یہ بات انتہائی حد تک اہمیت کی حامل ہے کہ ان خطرات کا کوئی غلط اندازہ نہ لگایا جائے جو داعش کی وجہ سے ابھی تک موجود ہیں۔
جمعرات بیس دسمبر کی شام لندن میں برطانوی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’(داعش کے مکمل خاتمے کے حوالے سے) اب بھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے اور ان جملہ خطرات کو کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے، جو داعش کی وجہ سے ابھی تک بالکل موجود ہیں۔‘‘
م م / ع س / اے ایف پی، روئٹرز