ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس جرمنی کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟
10 نومبر 2018امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اقتصادی مشاورتی قونصل کی جانب سے تیار کی گئی ’بریفنگ رپورٹ‘، جرمنی کے بارے میں صدر ٹرمپ کی ’منفی سوچ‘ کی عکاس نظر آتی ہے۔ یہ بریفنگ رپورٹ رواں برس اپریل میں وائٹ ہاؤس میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ہونے والی ایک اہم ملاقات سے ایک روز قبل جاری کی گئی تھی۔
مورخہ ستائیس اپریل 2018ء کو صدر ٹرمپ اور چانسلر میرکل کے درمیان تجارت اور اقتصادی امور پر اختلاف رائے کے باوجود دونوں رہنماؤں کی ملاقات دوستانہ ماحول میں ہوئی تھی۔ بعد ازاں امریکی صدر کی جانب سے جرمنی کے امریکا کے ساتھ بڑے ٹریڈ سرپلس پر تنقید کے ساتھ ساتھ نیٹو اتحاد کے دفاعی بجٹ میں کم ادائیگی پر بھی تنقید دیکھنے میں آئی تھی۔
رواں برس اپریل کے آخر میں جاری کردہ رپورٹ میں جرمنی کو دنیا میں سب سے زیادہ اکاؤنٹ سرپلس رکھنے والا ملک بتایا گیا۔ دو صفحات پر مبنی دستاویز میں یہ بھی بتایا گیا کہ یورپی یونین میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد کے حوالے سے جرمنی دوسرے نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ میں مزید شامل تھا کہ جرمنی میں بے روزگاری کی شرح سب سے کم ہے۔
ٹرمپ اقوام متحدہ کو ’تباہ کرنے سے باز‘ رہیں، جرمن چانسلر
ٹرمپ کا نیٹو اتحادیوں کے لیے انتباہی خط
امریکی صدر کی اقتصادی مشاورتی قونصل کی جانب سے تیار کردہ اس دستاویز میں برلن حکومت کی تارکین وطن کے حوالے سے پالیسی کا بھی ذکر کیا گیا۔ ڈیلی اقتصادی بریفنگ کے مطابق، ’’جرمنی میں عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ملک میں غیر ملکیوں کی بڑی تعداد میں آمد ایک بحران کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘ واضح رہے صدر ٹرمپ کی جانب سے چانسلر میرکل کے سن 2015 میں لاکھوں مہاجرین کے لیے ملکی سرحدوں کو کھولنے کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے ادارہ برائے جرمن اور یورپین اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جیفری اینڈرسن کے خیال میں یہ رپورٹ جرمنی کے مطابق صدر ٹرمپ کے خدشات اور پہلے سے طے شدہ فیصلوں کی عکاس ہے۔ اینڈرسن کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں امریکا میں جرمن سرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے امریکا میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ لہٰذا یہ رپورٹ یکطرفہ نظریے کی حامل تھی۔
اس وضاحتی دستاویز کے حوالے سے جرمن حکومت کے ترجمان کا موقف جاننے کی کوشش کی گئی تو جواب میں کہا گیا ’’ہم عموماﹰ دوسرے ممالک کے ’بریفنگ پیپرز‘ پر رائے دینے سے گریز کرتے ہیں۔‘‘
ع آ / ا ا (نیوز ایجنسیاں)