ٹرمپ کے طنزیہ بیانات اور چینی شمالی کوریائی تعلقات کی حقیقت
3 جنوری 2017چینی دارالحکومت بیجنگ سے منگل تین جنوری کو موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق نو منتخب امریکی صدر کئی بار یہ شکایت کر چکے ہیں کہ چین کمیونسٹ کوریا کے ایٹمی پروگرام کو رکوانے کے لیے جو کوششیں کر رہا ہے، وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم پیر دو جنوری کی شام ڈونلڈ ٹرمپ نے، جو ٹوئٹر پر بہت سرگرم ہیں اور بہت سے موضوعات پر اپنی سیاسی رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں، ایک بار پھر ٹوئٹر پر ایسے پیغامات جاری کیے، جن میں بیجنگ پر شدید تنقید کی گئی۔
ٹرمپ کا طنزیہ طعنہ
ٹرمپ کی یہ ٹویٹس اپنے اندر واضح طور پر سخت سیاسی تنقید اور طنز کا پہلو لیے ہوئے تھیں۔ اپنے ایسے ہی ایک پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا، ’’چین امریکا کے ساتھ قطعی طور پر یکطرفہ تجارت میں امریکا سے بےتحاشا سرمایہ اپنے ہاں لے جاتا رہا ہے، لیکن شمالی کوریا کے معاملے پر مدد نہیں کرے گا۔ واہ!‘‘
اے ایف پی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی یہ اور دیگر ٹویٹس کمیونسٹ کوریا کے اس بیان کے محض ایک روز بعد سامنے آئیں، جس میں شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا تھا کہ پیونگ یانگ ایک نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (ICBM) کے تجربے کی تیاریوں کے آخری مرحلے میں ہے اور عنقریب ہی اس میزائل کا تجرباتی دھماکا کر سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق کم جونگ اُن کا یہ بیان بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش تھی، خاص طور پر ایک ایسے وقت پر جب ان کی طرف سے امریکی صدر کے طور پر اپنی ذمے داریاں سنبھالنے میں تین ہفتے سے بھی کم کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔
اس بارے میں اپنی ایک ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا، ’’شمالی کوریا نے کہا ہے کہ وہ ایک ایسے ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے آخری مراحل میں ہے، جو امریکا کے مختلف حصوں تک مار کر سکنے کی اہلیت رکھتا ہو گا۔ ایسا تو ہو گا ہی نہیں!‘‘
چند اہم سوالات
شمالی کوریا کے روکنے کے لیے اگلے امریکی صدر کے پاس حقیقی معنوں میں کیا امکانات موجود ہیں اور بیجنگ پیونگ یانگ کا متنازعہ ایٹمی پروگرام رکوانے کے لیے کیا کچھ کر سکتا ہے؟ اس سلسلے میں چین اور شمالی کوریا کے روایتی تعلقات کے پس منظر میں پانچ سوال بہت اہم ہیں:
1950 سے لے کر 1953 تک لڑی جانے والی کوریائی جنگ کے بعد سے شمالی کوریا تکنیکی طور پر ابھی تک امریکا کے ساتھ حالت جنگ میں ہے کیونکہ یہ جنگ کسی امن معاہدے کے ساتھ نہیں بلکہ ایک فائر بندی معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی تھی۔ پیونگ یانگ میں ملکی قیادت کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے ’جارحیت کے مسلسل خطرے‘ کے باعث اپنے تحفظ کی خاطر اور دشمن کی طرف سے کمیونسٹ کوریا پر حملے میں پہل سے بچنے کے لیے قابل اعتماد ایٹمی طاقت شمالی کوریا کی بقا کے لیے لازمی ہے۔
شمالی کوریا اکثر اپنی حریف ہمسایہ ریاست جنوبی کوریا کو دھمکیاں دیتا رہتا ہے لیکن پیونگ یانگ کی ترجیح ایسے خطرناک اور مؤثر ہتھیاروں کا حصول ہے، جن کے ساتھ وہ امریکا کو اسی کی سرزمین پر خوفناک حملوں کی دھمکیاں دے سکے۔
کمیونسٹ کوریا کا واحد اتحادی
دوسری طرف چین شمالی کوریا کا واحد اتحادی ملک ہے، جو بین الاقوامی سفارت کاری میں پیونگ یانگ کی حفاظت بھی کرتا ہے اور کمیونسٹ کوریا کی بدحال معیشت اگر آج تک کسی نہ کسی طرح کام کر رہی ہے تو ایسا بھی صرف بیجنگ کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ چین اور شمالی کوریا دونوں ملکوں میں حکمران کمیونسٹ پارٹیاں گزشتہ کئی عشروں سے باہمی ہمدردی اور نظریاتی قربت کی وجہ سے بھی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ کوریائی جنگ میں چین نے اپنے جو فوجی جزیرہ نما کوریا پر کمیونسٹ کوریا کی حمایت میں بھیجے تھے، ان میں سے خود چین کے مطابق ایک لاکھ اسّی ہزار اور مغربی مؤرخین کے مطابق قریب چار لاکھ چینی فوجی وہاں مارے گئے تھے۔
قربت ایسی ’جیسے ہونٹ اور دانت‘
تاریخی طور پر دیکھا جائے تو بیجنگ اور پیونگ یانگ کے قریبی تعلقات کے بارے میں کمیونسٹ چین کے بانی ماؤ زےتنگ کا یہ جملہ ہی کافی ہے کہ یہ دونوں ہمسایہ ملک ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں، ’جتنے ہونٹ اور دانت‘۔
بیجنگ کو یہ خطرہ بھی ہے کہ اگر کمیونسٹ کوریا ایک ریاست کے طور پر ناکام ہو گیا تو بھوک کا سامنا کرنے والے کئی ملین شمالی کوریائی باشندوں کی وجہ سے چین کی اس ملک کے ساتھ سرحد پر جیسے ایک انسانی سیلاب آ جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹوئٹر پر کل پیر کے روز جاری کردہ بیانات کے بعد منگل تین جنوری کو بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے بس اتنا ہی کہا، ’’چین شمالی کوریا کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے سخت خلاف ہے اور جزیرہ نما کوریا سے ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے مسلسل کوشاں ہے۔‘‘