ٹرمپ کے نئے وار نے جی سیون کو ’جی سِکس‘ بنا دیا: تبصرہ
10 جون 2018کبھی کبھی یہ ٹھیک ہوتا ہے کہ چیزوں کو باندھ کر رکھنے والی ٹیپ کھینچ کر اتار ہی دی جائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا میں ہونے والی جی سیون کی سربراہی کانفرنس کے دوران بھی یہی کیا۔ ٹرمپ نے اس سمٹ کے اختتامی اعلامیے کے لیے پہلے اپنی حمایت کا اظہار کر دیا تھا۔ پھر سنگاپور جاتے ہوئے طیارے میں سوار ہونے کے بعد انہوں نے عین آخری لمحات میں ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام کے ذریعے اس اعلامیے کی دستاویز کے لیے اپنی توثیق منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔
اس ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ میزبان ملک کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں غلط بیانی کی تھی، اسی لیے انہوں نے اس سمٹ میں شریک امریکی نمائندوں سے کہہ دیا ہے کہ وہ سربراہی اجلاس کے اختتامی اعلامیے کی دستاویز کی حمایت نہ کریں۔
بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے یہ کوئی ایسی پہلی چال نہیں ہے، جس میں وہ آگے بڑھنے کے بعد پھر پیچھے کی طرف چل پڑے ہیں۔ وہ واقعی یکدم اعلانات، منسوخیوں اور اخراج کے فیصلوں کے ماہر ہیں۔ پہلے انہوں نے تحفظ ماحول سے متعلق پیرس کے عالمی معاہدے سے امریکا کے اخراج کا اعلان کیا، پھر ایران کے ساتھ جوہری ڈیل سے واشنگٹن کے نکلنے کا، پھر ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کو الوداع کہنے کا، اس کے بعد امریکا کی طرف سے یونیسکو میں اپنی رکنیت ترک کر دینے کا اور اب جی سیون کے اعلامیے کی دستاویز کی حمایت سے پیچھے ہٹنے کا۔ یہ تو محض چند مثالیں ہیں۔
ایرانی جوہری معاہدے سے امریکی اخراج کے اعلان کے اثرات کے برعکس، کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں ہونے والی دنیا کے صنعتی طور پر ترقی یافتہ سات ممالک یعنی جی سیون کی اس سربراہی کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اختلافی موقف کے اثرات زیادہ شدید نہیں ہوں گے کیونکہ یہ مشترکہ بیان نہ تو بہت جامع ہے اور نہ ہی اس پر عمل کرنا ہر رکن ملک کے لیے لازمی ہے۔
لیکن اس طرح امریکی صدر نے جی سیون کو جو علامتی نقصان پہنچایا ہے، اس کے اثرات بہت شدید اور دور رس ہوں گے۔ سات کے گروپ کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ سمٹ کے شرکاء آپس میں کسی مشترکہ دستاویز پر متفق ہی نہ ہو سکے۔
لیکن یہی بات سچی اور کڑوی بھی ہے مگر درست بھی۔ اس لیے کہ کیوبیک میں ٹرمپ نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عالمی نظام اور امریکا کے قریب ترین اتحادیوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اب صرف وہ بنیادی دراڑ سامنے آ گئی ہے، جس کو پوشیدہ رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔
کیوبیک میں لا مالبائی کے مقام پر ہونے والی اس سمٹ کے باقی تمام شرکاء یہ چاہتے تھے، اور اختتامی دستاویز میں انہوں نے اس کا اظہار بھی کیا کہ عالمی سطح پر تجارت کو ’آزادانہ، منصفانہ اور دونوں تجارتی فریقین کے لیے سود مند نتائج کا حامل‘ ہونا چاہیے۔ لیکن ٹرمپ، جن کی سیاست کی ایک بڑی پہچان اقتصادی شعبے میں ان کی حفاظت پسندی یا پروٹیکشن ازم ہے، اس کے بالکل خلاف تھے۔
اسی لیے انہوں نے جتنا بھی وقت اس سمٹ میں گزارا، اس میں ان کا یہ موقف بہت واضح تھا کہ سمٹ کے اختتامی اعلامیے کی دستاویز میں جو کچھ بھی لکھا جائے یا نہ لکھا جائے، وہ اپنی ’پہلے امریکا‘ کی پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہی وہ سوچ ہے، جس نے واشنگٹن اور اس کے قریبی اتحادی صنعتی ممالک کے مابین ایک گہری خلیج پیدا کر رکھی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سمٹ میں کیا کچھ کیا، اس کا میزانیہ بھی غیر اہم نہیں ہے: وہ دیر سے آئے اور جلدی چلے گئے۔ میڈیا کو مخاطب کر کے انہوں نے جو کچھ بھی کہا، اس میں ان کے بہت مخصوص جذباتی جملے تو شامل تھے ہی۔ انہوں نے اپنے اتحادیوں کو تجارت روک دینے کی دھمکیاں دیں، تاکہ وہ اضافی محصولات کی جنگ میں واشنگٹن کے مقابلے میں اپنے موقف سے پیچھے ہٹ جائیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے امریکی معیشت کو مضبوط بنانے کی اپنی کوششوں کی خود تعریف بھی کی اور اپنے پیش رو امریکی صدر باراک اوباما پر تنقید بھی کی۔
پھر آخر میں انہوں نے ایک بار پھر یہ بھی کہا کہ جی سیون کو جی ایٹ ہونا چاہیے اور روس کو اس گروپ میں دوبارہ شامل کیا جانا چاہیے۔ اس پر اٹلی کے سوا باقی تمام ممالک کے رہنماؤں کو اتفاق نہیں تھا اور وہ ٹرمپ کی یہی تجویز پہلے ہی کھل کر مسترد بھی کر چکے تھے۔
جی سیون کی اس سمٹ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس میں امریکی صدر ٹرمپ نے تقریباﹰ عملی طور پر ’سات کے گروپ‘ کو ’چھ کے گروپ‘ میں بدل دیا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ کم از کم جی سیون میں شامل چاروں یورپی ممالک (برطانیہ، جرمنی، فرانس اور اٹلی) اپنی یہ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں کہ عالمی سطح پر وہ نظام باقی رہنا چاہیے اور اس کا دفاع کیا جانا چاہیے، جس کی بنیاد ضابطوں پر ہے اور جو قوانین کے تحت کام کرتا ہے۔ اب یورپی ممالک کو یہ کام تب تک کرنا ہو گا، جب تک واشنگٹن کے رویے میں تحمل، دانش اور بردباری دوبارہ واپس نہیں آ جاتے۔
میشائل کنِگے (مقبول ملک)