پاک افغان تجارتی معاہدے پر تنقید
19 جولائی 2010چیمبر کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے مقامی صنعتیں تباہ ہو جانے کا خدشہ ہے جبکہ 24 سو کلومیٹر طویل سرحد کی نگرانی کے لئے بھی کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا۔
خیبر پختونخوا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ریاض ارشد کا کہنا ہے کہ اس معاہدے سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار مجروح ہو گا۔ ’’بھارت کو سمندری اورفضائی راستوں کے ذریعے افغانستان تک رسائی دے دی گئی ہے۔ اب وہ چالیس منٹ میں افغانستان پہنچ سکتے ہیں، جہاں سے ان کی وسطی ایشیا تک رسائی اور بھی آسان ہوگی۔ اسی طرح ٹرانزٹ ٹریڈ کے اس معاہدے میں افغانستان کو کراچی تک رسائی دی گئی ہے، جس کی وجہ سے اب منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ کے امکانات بڑھ جائیں گے جبکہ ٹرانزٹ ٹریڈ کے اس شعبے سے وابستہ بہت سے پاکستانی کارکن بےروزگار ہو جائیں گے۔‘‘
ریاض ارشد نے کہا: ''اس کے منفی اثرات ہمارے صوبے پر زیادہ پڑیں گے۔ ہم دیگر شہروں کے ایوان ہائے صنعت و تجارت کے ساتھ مل کر متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں گے اوراپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔‘‘
افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے پر 45 سال بعد نظرثانی کی گئی ہے۔ 1965ء میں طے پانے والے اس معاہدے کی رو سے افغانستان پاکستان کے راستے دیگر ممالک سے اپنی اشیائے ضرورت درآمد کر سکتا ہے۔
تاہم خیبر پختونخوا کی تاجر برادری اس معاہدے پرنظرثانی کو امریکی دباﺅ کا نتیجہ قرار دے رہی ہے، جس کے تحت تمام فوائد افغانستان اور بھارت کو ملیں گے کیونکہ معاہدے کی رو سے افغانستان کو اپنی مصنوعات بھارت برآمد کرنے کے لئے پاکستان کے راستے واہگہ کی پاک بھارت سرحد تک پہنچانے کی اجازت بھی ہوگی۔
لیکن بھارت کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ بھارت کو واہگہ بارڈر پر افغانستان لے جائے جانے والے سامان کو اتارنے کی اجازت ہو گی، جہاں سے افغان ٹرک اس سامان کو آگے لے کر جا سکیں گے۔
معاہدے کے مطابق بھارت کو افغانستان تک سامان کی نقل وحمل کے لئے پاکستان کے فضائی اور سمندری راستے استعمال کرنے کی بھی اجازت ہو گی، جس کے تحت بھارت اپنا سامان افغانستان بھجوانے کے لئے پاکستان کے سمندری راستوں کے ذریعے کراچی کی بندرگاہ اور پورٹ بن قاسم تک لائے گا جبکہ اسے فضائی راستے استعمال کرنے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔
رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور
ادارت: مقبول ملک