پاک بھارت کشیدگی افغان امن عمل کو متاثر نہ کرے، امریکی کوشش
4 مارچ 2019امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے پیر چار مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق واشنگٹن ہندوکش کی ریاست افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی طرف سے مسلح مزاحمت کے باعث گزشتہ 17 سال سے بھی زیادہ عرصے سے جاری جنگ کے خاتمے سے متعلق اپنی کوششوں میں کوئی بھی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ اسی لیے امریکا کی کوشش ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں پلوامہ میں 14 فروری کو کیے گئے خود کش بم حملے کے بعد سے دو ہمسایہ لیکن حریف ایٹمی طاقتوں کے طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین جو انتہائی شدید کشیدگی پائی جاتی ہے، اسے واشنگٹن کی افغان طالبان کے ساتھ امن مکالمت کو متاثر نہیں کرنا چاہیے۔
اسی کشیدگی کے نقطہ عروج پر بھارتی جنگی طیاروں کی طرف سے 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد سے پہلی بار پاکستان میں فضائی حملے بھی کیے گئے تھے۔ ان حملوں کے جواب میں پاکستانی جنگی طیاروں نے بھی کارروائی کرتے ہوئے کم از کم ایک بھارتی فائٹر جیٹ مارگرایا تھا اور ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دونوں ممالک کے مابین ایک بھرپور اور باقاعدہ جنگ شروع ہو جانے کے خطرے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے پاکستان اپنے طور پر ایک مثبت قدم اٹھاتے ہوئے ابھینندن کمار نامی اس بھارتی پائلٹ کو واپس بھارت کے حوالے بھی کر چکا ہے۔
پاکستان کا ’تنبیہی‘ موقف
اس پس منظر میں امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکاروں نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ امریکا نے اسلام آباد میں پاکستان کے اعلیٰ حکام سے رابطوں میں اس بات پر زور دیا کہ بھارت کے ساتھ کسی بھی مسلح تصادم کے خطرے کو کم کیا جائے۔ ان رابطوں کے دوران اسلام آباد کی طرف سے مبینہ طور پر امریکا کو افغانستان کے حوالے سے ’تنبیہی پیشکشیں‘ بھی کی گئیں۔
ایک امریکی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی حکام کی طرف سے امریکا سے کہا گیا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے مابین موجودہ کشیدگی ایک باقاعدہ اور بھرپور ’بحران‘ کی شکل اختیار کر گئی، تو اس سے اسلام آباد کی افغان امن مذاکرات کے لیے تائید و حمایت کی اہلیت بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔
امن مذاکرات کے لیے سہولت کار
ایک اور اعلیٰ امریکی اہلکار نے پاکستان کی طرف سے واشنگٹن تک پہنچائی گئی تنبیہات میں دیے گئے پیغام کو دوہراتے ہوئے روئٹرز کو بتایا، ’’وہ ان مذاکرات کے سہولت کار ہونے سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ وہ اس دباؤ سے بھی ہاتھ کھینچ لیں گے، جو وہ (افغان طالبان پر) ڈال رہے ہیں۔‘‘
پاکستان ایک سے زائد مرتبہ اور باضابطہ طور پر ان الزامات کی تردید کر چکا ہے کہ پلوامہ میں ہوئے خود کش بم حملے میں اس کا کسی بھی قسم کا کوئی کردار تھا۔ لیکن اس ہلاکت خیز حملے کی ذمے داری پاکستان ہی میں کالعدم قرار دی جا چکی عسکریت پسند تنظیم جیش محمد قبول کر چکی ہے، جس نے پاکستان میں اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں اور جس کے بارے میں نئی دہلی کا اسلام آباد پر الزام ہے کہ وہ اس تنظیم کی پشت پناہی کر رہا ہے۔
دوسری طرف امریکا بھی پاکستان پر عرصے سے یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ اس کے افغانستان میں ان طالبان عسکریت پسندوں سے قریبی روابط ہیں، جو کئی برسوں سے وہاں امریکا کی حمایت یافتہ کابل حکومت اور ملکی اور غیر ملکی سکیورٹی دستوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کی قیام امن کو روکنے کی اہلیت
اب جب کہ امریکا افغان طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کر چکا ہے اور اس عمل میں پاکستان نے پس پردہ رہتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے میں بھی اپنا کردار ادا کیا ہے، واشنگٹن یہ نہیں چاہتا کہ نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین کشیدگی امریکا کی افغان طالبان کے ساتھ کسی ممکنہ امن معاہدے کے لیے بات چیت پر اثر انداز ہو۔
اس سلسلے میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سابق اعلیٰ اہلکار لارل ملر نے روئٹرز کو بتایا، ’’میرے خیال میں پاکستان کے پاس اتنی اہلیت تو نہیں ہے کہ وہ افغانستان میں براہ راست قیام امن کو ممکن بنا دے، لیکن وہ اس بات کا اہل تو بہرحال ہے کہ (افغانستان میں) قیام امن کا راستہ روک دے۔‘‘
’ٹرمپ کی سیاست بھی مسائل کی وجہ‘
اسی بارے میں امریکا کے پاکستان اور افغانستان کے لیے سابق خصوصی مندوب ڈین فیلڈمین نے روئٹرز کو بتایا کہ پاکستان میں کئی اعلیٰ حکام ایسے ہیں، جو بھارت کے ساتھ روابط کے نگران بھی ہیں اور افغانستان کے ساتھ تعلقات کے بھی۔ ’’اسی لیے وہ افغان امن مذاکرات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔‘‘
ڈین فیلڈمین کے مطابق امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ نے جنوبی ایشیا پر اپنی توجہ کے جس فقدان کا اب تک مظاہرہ کیا ہے، وہ مختلف مسائل کی وجہ بن رہا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ٹرمپ انتظامیہ کو اس خطے کے لیے اپنی حکمت عملی میں زیادہ گہری اور مرکوز سوچ اور پھر اسی سوچ پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔‘‘
م م / ع ت / روئٹرز