1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک فوج سے جذباتی وابستگی ہے سیاسی نہیں

3 اکتوبر 2020

کراچی میں زندگی تیز اور شہری مسائل کے گنجلگ خانوں میں بٹی ہوئی ہے، یہاں لوگوں کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ وہ ماضی کے بوجھ سے آزاد مقامی سیاسی تحریک بنائیں اور ایم کیو ایم کا سیاسی خلا پُر کر سکیں۔

https://p.dw.com/p/3jN9N
Pakistan | DW Blogger Iffat Hasan Rizvi
تصویر: privat

مسلح افواج کے حوالے سے اس شہر کے اکثریتی لوگوں کی طرح میرا بھی احترام کا تعارف ہے۔ عجب یہ کہ ہمارے قریبی عزیز، دور کے رشتے دار، دوست احباب میں شاذ و نادر ہی سنتے تھے کہ کوئی پاکستان کی مسلح افواج کا حصہ بنا ہو۔ اس لیے عسکری معاملات میں میری دلچسپی اور معلومات بہت محدود تھیں۔ دفاعی رپورٹنگ کی تو چاروناچار اس فیلڈ کی کوریج کے 'اسرار و رموز‘سیکھے۔

ابھی پچھلے ہفتے چائے کی میز پر جب گرما گرم سیاسی باتیں چھڑ گئیں تو سپریم کورٹ رپورٹر حسنات ملک نے کہا 'پنجاب کے مارشل ریس علاقوں میں بھی اب فوج کے سیاسی کردار پر بحث ہونے لگی ہے‘۔

پہلے تو میں نے ایسے سر ہلایا، جیسے سب سمجھ آ رہا ہو، جب الجھن زیادہ بڑھی تو پوچھ ہی لیا کہ بھائی یہ مارشل ریس علاقے کیا ہیں؟

اس کا مختصر تعارف اور تعریف یہ ہے کہ پاکستان بننے سے قبل جب برصغیر برطانیہ کی کالونی تھا تب برٹش انڈین آرمی میں پنجاب سے فوجیوں کی بڑی تعداد بھرتی ہوئی۔ پنجاب میں بھی پنڈی ڈویژن کے جوان جوق در جوق اس فوج کا حصہ بنے۔ وجہ ان کے قد کاٹھ ہی نہیں پوٹھوہار ریجن کا بارانی اور غیر صنعتی علاقہ ہونا بھی ہے۔

برطانیہ کی کالونی ختم ہوئے اور پاکستان بنے تہتر برس ہو چلے ہیں جہلم ، چکوال ،راولپنڈی اور اٹک کے باشندوں کا آج بھی پسندیدہ پیشہ فوج میں کمیشن حاصل کرنا ہے۔

یہاں گاؤں کے گاؤں پوری پوری برادریاں فوج میں بھرتی ہیں۔ نسل در نسل شجاعت و بہادری دکھانے والےاس علاقے کے لوگ بھی ان دنوں اک عجب بحث میں پھنسے ہیں اور وہ ہے فوج، اسٹیبلشمنٹ اور سیاست خصوصاً ن لیگ کی جارحانہ سیاست۔

حسنات ملک بتا رہے تھے کہ چکوال میں ان کے آبائی علاقے بڈھیال میں ایسا ماحول پہلی بار دیکھا ہے، جہاں ڈیروں اور بیٹھکوں میں سگے باپ بھائی، چچا زاد ماموں زاد سیاست اور فوج کے موضوع پر کھل کر بات کر رہے ہیں۔ کسی کا بیٹا فوجی ہے،کسی کا باپ ائیر فورس کا ریٹائرڈ،اور کوئی نہیں تو کسی کا پڑوسی پاک بحریہ میں ہے۔ یہ آپس میں ایسے الجھے ہیں، جیسے اس بار بحث سمیٹ کر ہی اٹھیں گے۔

موضوع تو خاصا دلچسپ تھا، اسی ' مارشل ریس‘ علاقے سے ابھرنے والا پروفیسر فتح ملک کا خانوادہ بھی ہے۔ پروفیسر طاہر ملک کی اپنی جداگانہ سیاسی رائے ہے۔ میں نے ان سے ذکر چھیڑ دیا، کہنے لگے یہ علاقے ملٹری بریڈنگ گراونڈ ہیں لیکن یہاں کے لوگوں میں سیاسی شعور بھی اتنا ہی موجود ہے جتنا کہ بہادری۔'آپ خود ہی گن لیں آج تک جتنے مارشل لاء لگائے گئے ان میں کتنے جرنیل پنڈی ڈویژن کے تھے؟ ‘

یہ بھی پڑھیے:

پاکستانی نوجوان اپنی شناخت کی تلاش میں

شاید پروفیسر طاہر ملک کی سعی تھی کہ میں ان علاقوں کو عسکری شناخت سے نتھی نہ کروں بلکہ یہاں کے لوگوں کے سیاسی انتخاب کو بھی سامنے رکھوں۔ اسی حوالے سے بتانے لگے کہ' انیس سو اٹھاسی کے الیکشن میں ابھی سابق جرنیل ضیاالحق کو طیارہ حادثے میں دنیا سے گئے چند ماہ ہی ہوئے تھے، ان کے بیٹے اعجاز الحق راولپنڈی کینٹ سے الیکشن میں کھڑے ہوئے اور بری طرح ہار گئے۔ راولپنڈی کینٹ خالصتاً فوج سےکسی نہ کسی صورت منسلک افراد کا رہائشی علاقہ ہے پھر بھی ایک جرنیل کے بیٹے کو شرف قبولیت نہ ملا۔ اس لیے پوٹھوہار ریجن کے زور ِبازو کو سراہیں، ساتھ ساتھ سیاسی ذوق کو بھی داد دیجیے۔‘

پروفیسر طاہر ملک تلہ گنگ کے ہیں اور ان کے مطابق افواج پاکستان میں خدمات دینے والے ایک عام فوجی اور اس کے اہل خانہ کو اب یہ تشویش ہے کہ اگر عمران خان حکومت پرفارم کرنے میں ناکام ہے تویہ ذمہ فوج کے سر کیوں؟ انہوں نے کہا کہ یہ علاقے فوجیوں کا گھر ہیں لیکن دلچسپ یہ بھی ہے وہاں مسلم لیگ ن کا بڑا مضبوط ووٹ بینک ہے، وہاں کے سیاسی کارکن اور مقامی رہنما پنجاب حکومت سے نالاں ہیں، وہ احتساب و انصاف کو متنازعہ بنانے پر بھی اپنی بے چینی ظاہر کررہے ہیں۔

پروفیسر طاہر ملک کو پورے پنڈی ڈویژن میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست،اس کے ہارے اور جیتے ہوئے امیدوار اور ان کی سیاسی پوزیشن ذات برادری، خالی چھوڑی گئی سیٹوں پر ضمنی الیکشن سب ازبر تھا۔ ان سے خاصی طویل گفتگو کے بعد ایک اندازہ تو مجھے ہو ہی گیا کہ مارشل ریس کے علاقے والوں کو پاک افواج سے شدید جذباتی لگاو ہے لیکن یہ وابستگی سیاسی نہیں۔

اپنی لاعلمی کو ملنے والی آگاہی سے میں بہت سے مفروضے بنا رہی تھی، توڑ رہی تھی تو میں نے سوچا دفاعی اور خارجہ امور کے نہایت سینئر رپورٹر طارق محمود ملک سے بھی مل لوں، یاد آیا کہ وہ بھی تو وہیں کہیں کے ہیں۔

طارق محمود چکوال کے علاقے بلال آباد کے ہیں۔ میرے سوال در سوال سنتے ہی بول اٹھے، 'میرے چچا فوج میں تھے، ہم ان کے ٹریننگ اور پھر پوسٹنگز کے قصے سن سن کر بڑے ہوئے، پاک فوج سے ہماری پوری برادری کو محبت ہے۔ کتنے ہی رشتے دار، دوست یار فوجی ہیں، پہلے ہمارے آبائی حلقوں میں پاک افواج پر کوئی سوال ہو جائے ممکن نہ تھا لیکن اب سوال ہو رہے ہیں۔‘

طارق محمود نے بتایا کہ ان کے علاقے میں کوئی ایسا قبرستان نہیں، جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے پاک فوج کے جوانوں کی قبور نہ ہوں۔ پھر جذباتی انداز میں کہنے لگے 'لیکن اب ہمارے علاقے کے لوگ پوچھتے ہیں کہ تم تو بڑے صحافی ہو بتاو کیا واقعی فوج کا کردار متنازعہ ہے؟ یہ سوال ہمارے لیے تکلیف دہ ہیں‘۔

طارق محمود ملک بیس سال سے صحافی ہیں اور یونیورسٹی کے استاد بھی۔ ان کے مطابق شاہد خاقان عباسی کی تجویز اچھی ہے کہ ایک 'نیشنل ڈائیلاگ‘ ہونا چاہیے۔

نسل در نسل فوج کو بیٹے دینے والے اٹک، جہلم، چکوال، راولپنڈی ہی کیا پوری قوم اس ملک کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتی ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی اور سیاست کے درمیان کھینچا تانی سے ہر پاکستانی کا نقصان ہو رہا ہے۔

 ویسے تو قدرت کے گرینڈ پلان کے مطابق دنیا میں اختلافات کو دوام ہے، اس لیے وہ تو ختم ہونے سے رہے۔ ہاں اس بار کھل کر ہونے والی بحث سے کوئی درمیانی مگر صحیح راہ مل جائے توسب کا بھلا سب کی خیر ہو۔