پاکستان: الیکشن جلد یا وقت پر، اربوں روپے کہاں سے آئیں گے؟
20 مارچ 2022کئی حلقوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں آنے والے انتخابات کس حد تک مہنگے ہو سکتے ہیں اور یہ کہ انتخابات کے لئے اتنی خطیر رقم کا انتظام کیسے کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اس بات کو واضح کیا ہے کہ آئندہ انتخابات الیکٹرونگ ووٹنگ مشین کے ذریعے ہی ہوں گے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں پروجیکٹ مینیجمنٹ یونٹ کام بھی کر رہا ہے۔ تاہم مالی امور پر گہری نظر رکھنے والوں کا دعوی ہے کہ ایسی مشینوں کے ساتھ انتخابات انتہائی مہنگے ہو سکتے ہیں۔
اتحادی جماعتوں کو حزب اختلاف کی پرکشش پیشکش
انتخابات پر اخراجات
واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2018 کے انتخابات میں تقریبا 21 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے۔ 2008 کے عام انتخابات میں 1.84 ارب روپے جبکہ سن 2013 میں 4.73 ارب روپے حکومت کی طرف سے مختص کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ سیاسی جماعتوں نے بھی انتخابی مہم اور اشتہارات پر بے پناہ پسیہ لگایا تھا۔ انتخابات سے متعلق ایک معاشی اندازے کے مطابق سن 2018 کے انتخابات کے دوران چار سو ارب روپے سے بھی زیادہ تھی۔
مہنگائی اور انتخابات
پوری دنیا میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر اب یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر پاکستان میں فوری طور پر انتخابات ہوتے ہیں، تو یہ بہت مہنگے ہوںگے۔ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے اور الیکشن دوہزار تئیس میں ہوتے ہیں تو اس صورت میں بھی وہ بہت مہنگے ہوں گے۔ سن 2018 کے انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے گیارہ ہزار سے زائد امیدوار تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ان امیدواروں نے انتخابات کے دوران بے تحاشا اخراجات انتخابی تیاریوں اور مہم پرکیے۔
معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ناقدین کا خیال ہے کہ ان انتخابات سے ملکی معیشت کو حرارت ملتی ہے جس سے پرنٹنگ، ایڈورٹائزنگ ڈیکوریشن اور دوسرے شعبوں کو بہت کاروباری فائدہ ہوتا ہے جبکہ کیٹرنگ بھی ان تمام سرگرمیوں سے فائدہ اٹھاتی ہے۔
اعتماد اور عدم اعتماد کے شکستہ پل پر خود کلامی
ڈی ڈبلیو نے جب ان اعداد وشمار کے حوالے سے معروف معیشت دان اور پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار کے مشیر برائے مالیاتی امور سلمان شاہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ اعداد و شمار حقیقت پسندانہ لگتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان میں قومی اسمبلی کے امیدوار دو کروڑ سے لے کر بیس کروڑ تک انتخابات پر خرچ کرتے ہیں۔ انتخابات کے دوران پرنٹنگ، ایڈورٹائزنگ اور بہت سارے شعبوں کو فروغ ملتا ہے جس کی وجہ سے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انتخابات میں سینکڑوں ارب روپیہ خرچ کیا جاتا ہے۔‘‘
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ایک افسر نے بھی نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ سن 2018 کے انتخابات میں 400 ارب روپے سے زیادہ ممکنہ طور پر لگا ہو گا۔
آنے والے انتخابات
پاکستان میں بھی گزشتہ تین برسوں میں ساری دنیا کی طرح بہت زیادہ مہنگائی بڑھی ہے جس کی وجہ سے یہ بھی امکان ہے کہ انتخابی اخراجات بھی کئی گنا بڑھ جائیں گے۔ سولہ دسمبر سن 2021 کی جیو نیوز کی ایک رپورٹ میں زاہد کشگوری نے دعوی کیا تھا کہ دوہزار تئیس کے انتخابات مہنگے ترین ہوں گے۔ اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 331 ملین پاکستانی اور دس ملین بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے الیکشن کے انتظامات کیے جائیں گے جس پر 424 ارب روپے کا خرچہ آ سکتا ہے۔
مدتوں سے منتخب رہنماؤں کی مدت پوری نہیں ہوئی
تاہم الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان ہارون شنواری کا کہنا ہے کہ یہ سب اندازے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''یہ بات درست ہے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں الیکٹرونگ ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا استعمال کیا جائے اور اس حوالے سے ایک پروجیکٹ مینیجمنٹ یونٹ نے کام بھی شروع کردیا ہے، لیکن ابھی تک انتخابات کا کوئی مالی تخمینہ نہیں لگایا ہے۔‘‘
تاہم ای سی پی کے ایک ذریعے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ای وی ایم بہت مہنگی پڑیں گی اور اس سے انتخابی اخراجات بہت بڑھیں گے، دو غیر ملکی کمپنیوں سے اس حوالے سے بات چیت چل رہی ہے، سن 2017-18 میں ان مشینوں کو پائلٹ پروجیکٹ میں ضمنی انتخابات میں استعمال کیا گیا تھا لیکن ان کی کارکردگی کوئی تسلی بخش نہیں تھی، اس کے باوجود حکومت انتخابات ان ہی کے ذریعے کرانا چاہتی ہے۔‘‘
پیسہ کہاں سے آئے گا؟
پاکستان کا تجارتی اور مالی خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں کئی ناقدین یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر ای وی ایم کے ذریعے انتخابات ہوتے ہیں تو اتنی خطیر رقم کہاں سے آئے گی۔ تاہم سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک مرتبہ کی سرمایہ کاری ہے۔ ''جب بھی کسی شعبے میں آپ پہلی مرتبہ سرمایہ کاری کرتے ہیں تو وہ مہنگی ہوتی ہے لیکن یہ مشینیں ممکنہ طور پر بیس پچیس برس چل سکتی ہیں تو یہ طویل مدت میں مہنگی نہیں پڑینگی ۔‘‘