1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور افغانستان سے متعلق امریکی اہداف

17 ستمبر 2009

امریکی صدر باراک اوباما کے مشیروں نے بدھ کو ملکی قانون سازوں کو افغانستان سے متعلق اہم نکات کی ایک فہرست پیش کی ہے، جس کا مقصد وہاں جاری جنگ کی پیش رفت کو سمجھنے میں مدد دینا ہے۔

https://p.dw.com/p/JiVl
تصویر: AP Graphics/DW

واشنگٹن حکومت اس کے ذریعے سینیٹرز میں افغان مشن کے بارے میں پائی جانے والی تشویش کو کم کرنا چاہتی ہے۔ یہ فہرست دراصل قانون سازوں کے ایماء پر ہی مرتب کی گئی ہے۔

افغانستان میں عسکری حکمت عملی کے جائزے اور تبدیلی سے متعلق بحث گزشتہ کچھ عرصے سے ویسے بھی امریکی انتظامیہ کی ترجیح بنی ہوئی ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما نے افغانستان میں نیٹو کے کمانڈر جنرل اسٹینلے میک کرسٹل کی افغان حکمت عملی کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا، 'عسکری جائزے کے ساتھ عوامی، ترقیاتی اور سفارتی سطح پر بھی حالات کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔'

Afghanistan Soldaten des 373 Batalions der Bundeswehr patroullieren in der afghanischen Hauptstadt Kabul
افغانستان میں عسکری حکمت عملی امریکی حکومت کی ترجیحتصویر: AP

اس فہرست میں امریکی قیادت میں جاری افغان مشن کا جائزہ لینے کے لئے اشاریے، پرتشدد کارروائیوں کی نوعیت، اور اسمگل کی جانے والے منشیات کے حجم کے ساتھ ساتھ کابل حکومت، پولیس اور عدلیہ کے بارے میں عوام کی رائے بھی شامل ہے۔ اِس کے ساتھ ہی اِس فہرست میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ شدت پسندوں کے زیرانتظام علاقوں میں آبادی کتنی ہے اور حکومتی زیرانتظام علاقوں میں مواصلات کے ذرائع کی صورتحال کیا ہے۔

John Sawers
اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر جان ساؤرزتصویر: picture alliance / landov

امریکی حکومت کی اس دستاویز میں افغانستان میں خود مختار سیکیورٹی فورس کے قیام کے حوالے سے پولیس اور فوج پر افغان عوام کے اعتماد، افغان سیکیورٹی فورسز میں پائی جانے والی بدعنوانی کے ساتھ ساتھ یہ نکتہ بھی شامل ہے کہ نیٹو اور مقامی فورسز کی مشترکہ کارروائیاں کس حد تک مؤثر ہیں۔

اس فہرست کے آغاز پر افغان جنگ کے مقصد اور حکمت عملی کو دوہرایا گیا ہے جبکہ اس میں دیے گئے اشاریوں میں کابل حکومت کو مستحکم بنانے کے مقصد کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے محصولات جمع کرنے کی حکومتی صلاحیت، عدلیہ کے بارے میں عوام کا رویہ، بدعنوانی کے خلاف کارروائیوں، انسانی حقوق کے لئے حمایت اور قومی و علاقائی سطح پر مصالحتی کوششوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

امریکی حکومت کی جانب سے مرتب کردہ اس فہرست میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ 'فرینڈز آف ڈیموکریٹک پاکستان' کا آئندہ اجلاس بھی 24 ستمبر کو امریکہ میں ہی ہو رہا ہے، جس کی صدارت امریکی صدر باراک اوباما، ان کے پاکستانی ہم منصب آصف زرداری اور برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن کریں گے۔ اس موقع پر پاکستان میں استحکام کے لئے کوششیں تیز کرنے پر غور کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر جان ساؤرز کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے کے اس اجلاس میں گزشتہ ماہ استنبول میں منعقد ہونے والے 'فرینڈز آف پاکستان' کے اجلاس میں ہوئی پیش رفت کو آگے بڑھایا جائے گا۔ اگست کے اجلاس میں پاکستان میں طالبان کے خلاف فوجی کارروائیوں کا جائزہ لیا گیا تھا، جس کے تنیجے میں مالاکنڈ ڈویژن میں 20 لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے تھے۔

استنبول کے اجلاس میں مالاکنڈ کے متاثرین کی بحالی کے لئے حکمت عملی پر اتفاق کیا گیا تھا۔ ساؤرز نے کہا کہ آئندہ ہفتے کے اجلاس میں اسی حکمت عملی میں توسیع کی کوشش کی جائے گی۔ ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ اسلام آباد حکومت اور بین الاقوامی برادری اس حکمت عملی کی حمایت کرے۔

رپورٹ: ندیم گِل

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں