پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی مذکرات کی بحالی
27 اپریل 2011اسلام آباد اور نئی دہلی حکومتیں نئے تعلقات کی بنیاد گزشتہ ماہ کی ’کرکٹ ڈپلومیسی‘ سے شروع ہونے والے جذبہ خیرسگالی پر رکھنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تب بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کو دونوں ممالک کی ٹیموں کے درمیان ہونے والا کرکٹ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل دیکھنے کے لیے اپنے ہاں مدعو کیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ بدھ سے دونوں ملکوں کے کامرس سیکرٹریوں کے درمیان شروع ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں کوئی بڑا بریک تھرو متوقع نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران بھارت سے بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر بات چیت ہو گی۔ خیال رہے کہ پاکستان کو بجلی اور توانائی کی قلت کا سامنا ہے اور اس تناطر میں ایسی درآمدات اس کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
نامعلوم پاکستانی حکومتی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا، ’کوئی ڈرامائی تبدیلی بالکل نہیں آئے گی، لیکن اس سے مزید پیش رفت کے لیے درست سمت کا تعین کرنے میں مدد ملے گی‘۔
اس اہلکار نے یہ بھی کہا کہ ان مذاکرات کے لیے کوئی خاص ایجنڈا نہیں ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس نوعیت کے مذاکرات تقریباﹰ ساڑھے تین سال بعد ہونے جا رہے ہیں۔ یہ مذاکرات سات برس پرانے امن عمل کا حصہ ہیں، جس کی بحالی پر فریقین میں رواں برس فروری میں اتفاق ہوا تھا۔ یہ عمل نومبر 2008ء میں اُن ممبئی حملوں کے بعد رُک گیا تھا، جن کے لیے نئی دہلی حکومت پاکستانی شدت پسند گروہ لشکر طیبہ کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے، ’ان مذاکرات سے کوئی بڑا فائدہ نہیں ہو گا، لیکن کسی بھی طرح کی مثبت پیش رفت سے بات چیت کے لیے ماحول سازگار بنے گا، جو کشمیر جیسے اہم مسائل پر گفتگو کے لیے ضروری ہے‘۔
دونوں ممالک کے درمیان اس سے قبل تجارتی مذاکرات جولائی 2007ء میں ہوئے تھے۔ تب انہوں نے اپنی تجارتی اشیاء کی فہرست میں 136 آئٹمز کا اضافہ کیا تھا، جن کی مجموعی تعداد آج کل ایک ہزار نو سو چھیالیس ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی