پاکستان اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل
21 نومبر 2011ایک سینئر طالبان کمانڈر اور مصالحت کار نے آج پیر کے روز اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے روئٹرز کو اس بات چیت کے سلسلے کی مناسبت سے تصدیقی بیان دیا۔ اس طالبان کمانڈر اور مصالحت کار کے مطابق یہ درست ہے کہ پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع ہے۔ قبائلی جنگی سردار اور انتہاپسند کمانڈر کے مطابق بات چیت ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور بریک تھرو کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے تحریک طالبان کے اعلیٰ کمانڈر کا کہنا تھا کہ سردست مذاکراتی عمل میں صرف جنوبی وزیرستان شامل ہے اور جنوبی وزرستان کی سطح تک اگر مذاکراتی ماڈل کامیاب ہو جاتا ہے، تو پھر اس گفت و شنید کے عمل کو وسعت دی جائےگی۔ پاکستانی حکام اور طالبان کے درمیان بات چیت، پشتون قبائلی مصالحت کار وں کے توسط سے ہو رہی ہے۔
پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت کو ایک مصالحت کار نے انتہائی مشکل امر قرار دیا ہے۔ تحریک طالبان نے حکومت کے ساتھ بات چیت کی کامیابی کے لیے چند شرائط پیش کر رکھی ہیں اور اس میں گرفتار انتہا پسند قبائلیوں کی رہائی بھی شامل ہے۔ پرانے مذاکراتی دور میں طالبان مذاکرات کار تاوان کی رقم بھی شرائط میں شامل کیا کرتے تھے۔ امکاناً اس بار بھی یہ شامل ہو سکتی ہے۔
بات چیت کے اس سے قبل بھی کئی ادوار ہوئے مگر وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے۔ جتنے بھی مذاکراتی عمل ہوئے وہ آگے بڑھنے سے قبل ہی پٹری سے اتر گئے اور اس دوران دیگر چھوٹے حامی گروپوں کو پنپنے کا موقع مل گیا اور بعد میں وہ بھی اپنے انتہاپسند اسلامی عقائد کے فروغ کے ساتھ ساتھ حکومتی مفادات پر حملوں میں مصروف ہو گئے۔ تحریک طالبان پاکستان کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا چکا ہے۔
پاکستانی قبائلی علاقے جنوبی اور شمالی وزیرستان میں انتہا پسند جنگی سرداروں کے گروہ سرگرم عمل ہیں۔ انہی قبائلی سرداروں میں حقانی نیٹ ورک شامل ہے، جو شمالی وزیرستان میں بیس بنائے ہوئے ہے۔ جنوبی و شمالی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان کے اڈے بھی ہیں۔ بنیادی طور پر تحریک طالبان تقریباً خاصی بڑی قبائلی پٹی میں فعال ہے۔
پاکستانی انتہاپسند قبائلیوں کی تنظیم تحریک طالبان اگر ایک طرف افغانستان کے طالبان کی حلیف اور حمایتی ہے، تو دوسری طرف یہ بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم القاعدہ کو بھی انتہائی عزیز رکھتے ہوئے اس کی کھلے عام حامی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف توقیر