پاکستان اور لبرل فیمنزم
4 مارچ 2022پاکستان میں فیمنزم کے معانی اور تشریح ہمیشہ غلط ہی کی جاتی رہی ہے۔ جو چند لوگ اس کی درست تشریح جانتے ہیں اوف سمجھتے ہیں کہ ان کو سامنے آنے یا ان سے بات کرنے یا مدد کرنے کے لیے منع کیا جاتا ہے۔
ہم لبرل فیمنزم پر بات کرنے سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ یہ ہوتا کیا ہے؟ لبرل فیمنسٹوں کا خیال ہے کہ آزادی ایک حقیقت ہے اور ایک ایسے خزانے کے مانند ہے، جس مزید آزادی کی خواہش بڑھتی ہے۔
لبرل فیمنسٹ اسی لیے ہر سال عالمی یوم خواتین پر، خواتین سے ہونے والی زیادتیوں پر احتجاج کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ کوئی معاشرہ ، ثقافت یا ادارہ خواتین کے حقوق کے تحریک دبا نہیں سکتا ہے۔
لبرل فیمنسٹ حقوق نسواں کو ذاتی خودمختاری کے جیسا سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی کو اپنی مخصوص ترجیحات اور خود مختاری کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اسی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں ان کے بارے میں ایک مخصوص منفی نظریہ فکر اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ حالانکہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو مردوں کی طرح مساوی مواقع کے ساتھ اپنی مرضی کے ساتھ گزارنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
پاکستان میں بھی چند سالوں میں ایک مخصوص طبقے نے اس کے پنپنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ان کا انداز کسی حد تک قابل اعتراض گردانا گیا ہے۔ کیونکہ انہوں نے جس انداز سے ہر سال متنازعہ بیانیہ کو فروغ دیا ہے اس سے وہ لوگ جو فیمینزم کے حامی نہیں تھے انہوں نے واضح طور پر اسے اخلاقی دیوالیہ پن کا نام دیا ہے۔
اس مارچ کا اصل مقصد عورت کی خود مختاری تھا تاہم وہ کہیں دور ہی رہ گیا۔ ہر سال عورت مارچ کے نام پر متنازعہ نعروں کی بھر مار نے اس کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ امتیازی سلوک اور تفریق کی اس تحریک کو غلط رنگ دینے میں کارپوریٹ میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ کیونکہ امتیازات ختم کر دینے سے عورت پروفیشنل اور انتظامی سطح کی سیلینگ توڑ کر اعلی عہدوں پر پہنچ سکتی ہے، جس کو ایک مخصوص مردانہ ذہنیت قبول نہیں کرپاتی۔
پاکستان میں ایک مخصوص طبقے کی میرا جسم میری مرضی جیسے نعروں کی تشہیر اور اس کے بعد اس کی منفی تشریح اور ہر سال اس کی بڑھتی شدت نے ایک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے کہ آیا ہمارا معاشرہ خواتین کی مساوات کو برداشت کرنے کے قابل بھی ہے۔
اس ضمن میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈووکیٹ شفیق بلوچ کا کہنا ہے کہ ہر سال بڑھتی منفی سوچ اور غلط فہمیوں نے اس کی راہ مزید مشکل کر دی ہے۔ اس پر مستزاد پاکستان کے وزیر مذہبی امور کی جانب سے خواتین تحاریک پر بالخصوص عورت مارچ پر سرکاری پابندی کی درخواست نے ان لوگوں کے لیے راہ آسان کر دی ہے، جو مخالف نظریہ کے لوگوں کو پر تشدد طور پر مارنا زیادہ ٹھیک سمجھتے ہیں بجائے کہ وہ اپنے نظریہ کا پرچار زیادہ زور شور سے کریں۔ دو انتہائیں ٹکرانے سے کبھی بھی امن رکھنا آسان نہیں رہا۔
اگر دیکھا جائے تو پاکستانی معاشرہ ایک تنوع پسند معاشرہ ہے، جس کے تنوع کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔ یہاں مذہبی اور لبرلز دونوں بہر حال موجود ہیں۔ اور کسی ایک طبقے کے نظریہ پر اپنا نظریہ مسلط کرنے کا مطلب صرف اور صرف معاشرے میں بے چینی کو ابھارنا ہے۔
مگر یہ امر بھی قابل غور ہے کہ خواتین کے حقوق کے علمبرداروں کے ذاتی شہرت کے لیے فوٹو سیشن کروانے اور ٹی وی شوز میں بلند بانگ دعوے کرنے سے خواتین کی خدمت نہیں ہوتی ہے۔
اگر ہم پاکستانی معاشرے میں دیکھیں تو عورتوں کی حالت زار پہ طبقاتی فلسفے کی مخالفت کرنے اور ان کی جدو جہد کو نہ ماننے کے بیانیے زیادہ گردش میں ہیں۔ فیمنزم زیادہ تر سرمایہ دار طبقے کی روشن خیال خواتین میں مقبول ہے جبکہ جس طبقے کو اس کی اصل ضروت ہے ان کے خیالات پر زیادہ تر رجعت پسند یا مذہبی حاوی ہیں۔
ایسے میں محنت کش طبقے کی علمبرداری ان دانشوروں کے سپرد ہے، جو اس طبقے سے مطابقت نہیں رکھتے اور یہی وجہ ہے کہ لبرل فیمنزم کے بارے منفی سوچ کو مہمیز ملتی ہے اور اس کے مخالفین میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔
اس سال یوم خواتین پر انصاف، تحفظ اور سکون کا نعرہ لگایا جانے کا امکان ہے۔ یہ نعرہ حقیقتاً اس وقت کی ضرورت ہے بلکہ اس پر عمل کی ضرورت ہے تاکہ جو منفی سوچ لبرل فیمنزم کے بارے میں پھیل گئی ہے اس کو کم کیا جا سکے گا۔
پاکستان میں لبرل فیمنزم بائیں بازو کے حلقوں میں سب سے نمایاں ہے۔ پاکستان میں حقوق نسواں کی زیادہ روایتی شکل ان حقوق پر مبنی ہے، جن کی اسلام نے منظوری دی ہے۔ تاہم موجودہ دور کی حقوق نسواں جنس، جنسیت، نسل، طبقے اور مذہب کے لحاظ سے اپنے ماضی کے ایڈیشنوں سے زیادہ تکثیری اور قبول کرنے والی ہے۔
خواتین کو بااختیار بنانے، کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے، غیرت کے نام پر قتل اور یہاں تک کہ گھریلو تشدد کے حوالے سے کئی قوانین حالیہ عرصے میں منظور کیے گئے ہیں۔
پاکستانی حقوق نسواں کو اب بھی خواتین پر تشدد کے خلاف احتجاج جاری رکھنے، خواتین کی تعلیم کے بارے میں شعور بیدار کرنے، خواتین کے سیاسی، قانونی اور صحت کے حقوق کے لیے کام کرنے اور مزید خواتین دوست قوانین کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔