پاکستان: بنوں کینٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، متعدد افراد زخمی
15 جولائی 2024خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق ایک مقامی پولیس اہلکار طاہر خان نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے اس مربوط حملے کا فوراً جواب دیا اور دہشت گردوں کے بنوں کینٹ میں داخل ہونے کی کوشش کو ناکام بنادیا۔ بنوں کینٹ کے وسیع و عریض علاقے میں بالخصوص فوج کے دفاتر اور سکیورٹی فورسز کی رہائش گاہیں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آرمی کے ہیلی کاپٹر اور دیگر سکیورٹی اہلکار علاقے میں دہشت گردوں کی ممکنہ موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے گشت کررہے ہیں۔
پاکستان میں حالیہ حملوں میں افغانوں کے ملوث ہونے کے دعوے غیر ذمہ دارانہ ہیں، طالبان
'اب افغانستان میں ٹی ٹی پی دہشتگردوں کا سب سے بڑا گروپ ہے' اقوام متحدہ
پولیس اہلکار نے بتایا کہ اس حملے میں کم از کم آٹھ افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ متعدد مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان حملوں میں کئی فوجی بھی زخمی ہوئے ہیں۔
بنوں پولیس کے ضلعی پولیس سربراہ ضیاالدین نے بتایا کہ ابتدائی تفصیلات کے مطابق دھماکہ بارود سے بھری گاڑی سے کیا گیا جس سے مکانات اور دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ شیشے ٹوٹنے سے کچھ افراد زخمی ہوگئے ہیں اور ابھی آپریشن جاری ہے۔
پاکستان: خود کش حملے میں سکیورٹی فورسز کے متعدد اہلکار ہلاک
تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے مزید حملوں کی دھمکی
ذرائع کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی مؤثر کارروائی سے دہشت گردوں کو ایک کونے میں محصور کر دیا گیا، سکیورٹی فورسز نے علاقے میں کلیئرنس آپریشن بھی شروع کر دیا ہے۔ اس واقعے پرحکومت یا فوج کی طرف سے فوری طورپر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ
بنوں افغانستان کی سرحد سے ملحق خیبرپختونخوا میں واقع ہے۔ حالیہ برسوں میں اس صوبے میں عسکریت پسندوں کے حملے ہوتے رہے ہیں۔
یکم جولائی کو خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں تختہ بیگ چوکی پر دہشت گردوں نے راکٹ لانچرز اور بھاری ہتھیاروں سے رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ناکہ بندی پرموجود ایک پولیس اور ایک ایف سی اہلکار جاں بحق ہو گئے تھے۔
بنوں میں اس سے قبل میں بھی اگست 2023 میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملے میں کم از کم نو اہلکاروں کی جان گئی جب کہ متعدد زخمی بھی ہوئے۔
جنوری 2023 میں پشاور میں عسکریت پسندوں نے خود کش حملہ کرکے کم از کم 101افراد کو ہلاک کردیا تھا،جن میں بیشتر پولیس اہلکار تھے۔ حالانکہ کسی نے اس حملے کی ذمہ داری نہیں لی تھی لیکن شک کی سوئی تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کی طرف گئی تھی۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور ان میں بیشتر کا ہدف سکیورٹی فورسز کے اہلکار رہے ہیں۔
حملے کا شبہ ٹی ٹی پی پر
پاکستانی حکومت کے عہدیدار حالیہ مہینوں میں متعدد بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی ملک میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے۔
اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے رواں ماہ ہی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں 'سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ بن گیا ہے، جسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے طالبان حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 'ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہے، جس کے لیے وہ اکثر افغانوں کو استعمال کرتی ہے۔‘
لیکن افغان حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور پاکستان کو تعاون کی یقین دہانیاں بھی کروائی جاتی رہی ہیں۔
ج ا / ص ز (ا ے پی، خبر رساں ادارے)