پاکستان: سیاسی وفاداریاں بدلنے کے خلاف صدارتی ریفرنس زیر بحث
21 مارچ 2022واضح رہے کہ اس ریفرنس میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ وہ آئین کی آرٹیکل 63 اے کی تشریح کرے۔
ریفرنس میں پوچھا گیا ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی کونسی تشریح قابلِ قبول ہے؟ کیا پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے نہیں روکا جا سکتا؟ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ شمار نہیں ہوگا؟ کیا ایسا ووٹ ڈالنے والا تاحیات نااہل ہو جائے گا؟ کیا منحرف ارکان کا ووٹ شمار ہوگا یا گنتی میں شمار نہیں ہوگا؟
پی ٹی آئی کی دلیل
پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس ریفرنس سے 'ضمیر فروشی‘ اور 'لوٹا کریسی‘ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ اس سے منتخب نمائندے کو یہ پتا ہوگا کہ اگر اس نے پیسوں کے خاطر اپنی سیاسی وفاداری تبدیل کی تو اس پر تاحیات پابندی لگ سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے اراکین اپنی وفاداریاں تبدیل نہیں کریں گے اور کوئی کسی کو خرید نہیں سکے گا۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے بھی آج اسی موقف کا اعادہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ریفرنس کا مقصد '’ضمیر فروشی‘ اور سیاست میں 'لوٹا کریسی‘ کو روکنا ہے۔
پی ٹی آئی کے فائدے کے لیے ریفرنس
تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ صدارتی ریفرنس پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانے کے لیے دائر کیا گیا ہے۔ پی پی پی کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری منظور کا کہنا ہے کہ کل تک یہ کہا جا رہا تھا کہ وکٹیں گر رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کل تک ان اراکین کو گلے لگایا جارہا تھا اور انہیں پارٹی میں شامل کیا جا رہا تھا اور آج انہیں ایک طرف ضمیر فروش کہا جا رہا ہے تو دوسری طرف انہیں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ پی ٹی آئی کو دوبارہ جوائن کریں۔‘‘
چوہدری منظور کے بقول سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کو روکنا چاہیے۔ ''لیکن یہ مسئلہ اس طرح کے صدارتی ریفرنس سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر بیٹھنا ہوگا اور کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا جسے وہ اتفاق رائے سے قانون کی شکل دے سکیں۔‘‘
ن لیگ اور پی پی کو حمایت کرنا چاہیے
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ نون نے ہی سب سے پہلے لوٹا کریسی کے خلاف قانون سازی کی تھی جبکہ پی پی پی کو بھی اس عمل سے شکایت تھی۔ لہذا اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس صدارتی ریفرنس کی حمایت کریں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بنیادی طور پر تو یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہے اخلاقی طور پر اگر کسی شخص نے کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑے ہیں اور وہ کامیاب ہوا ہے اور اگر بعد میں وہ وفاداری تبدیل کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی سیٹ چھوڑے اور دوبارہ سے انتخابات لڑیں لیکن کیوں کہ یہ قانون پہلے سے موجود ہیں اور یہ موثر ثابت نہیں ہوا اس لیے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے اگر تاحیات نااہلی کا خوف ہوگا تو اس کی وجہ سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہوگی۔‘‘
سیاسی وفاداریاں بدلنے کی تاریخ
ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد جب مسلم لیگ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو اس میں سے کئی لوگ کنونشن مسلم لیگ اور دوسری سیاسی جماعتوں میں چلے گئے۔ جب ایوب خان برسر اقتدار آئے تو فاطمہ جناح کے کچھ حامیوں نے ایوب خان کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔
ذوالفقار علی بھٹو پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے قریبی ساتھیوں کو زیرعتاب رکھا اور ان لوگوں کو بھلا دیا جنہوں نے پارٹی کو مقبول بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا اور بعد میں جاگیرداروں کو پارٹی کی صفوں میں جگہ دی۔ ان میں سے کچھ نے بعد میں جنرل ضیا کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ جب سن 1988 میں بےنظیر بھٹو اقتدار کے قریب تھیں، تو انہوں نے جنرل ضیا کی مجلس شوریٰ کے کچھ سابق ارکان کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
نواز شریف پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے محمد خان جونیجو کے ساتھیوں کو سائیڈ لائن کرکے پارٹی میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا لیکن پھر نواز شریف کے خلاف منظور وٹو نے بغاوت کی اور چوبیس گھنٹے کے اندر پنجاب اسمبلی کے ارکان کی ایک بڑی تعداد نے اپنی وفاداریاں تبدیل کی۔
اٹھاسی کے بعد چھانگا مانگا کا کلچر ملک میں پروان چڑھا جبکہ پیپلز پارٹی کے کچھ رہنماؤں نے نون لیگ جوائن کی اور نون لیگ کی کچھ سیاسی کارکنان نے پیپلز پارٹی جوائن کی۔ انیس سو اٹھانوے میں جب جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالا تو انہوں نے نہ صرف نون لیگ کو توڑ کر پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم بنوائی بلکہ پیپلزپارٹی میں بھی توڑ پھوڑ کی۔ 2008 کے بعد قاف لیگ کے کئی رہنما نون لیگ سے مل گئے اور پیٹریاٹ کے کئی رہنماؤں نے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔
سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا مرکز
عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں لوگ عموما آتے جاتے رہتے ہیں لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ جنوبی پنجاب اور ملک کے وہ علاقے جہاں جاگیردارانہ اثرورسوخ ہے وہاں سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا کلچر ہمیشہ پروان چڑھتا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر جن ارکان نے اپوزیشن کی طرف رخ کیا ہے ان کی بھی ایک بڑی تعداد کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا تعلق بھی جنوبی پنجاب سے ہے۔