پاکستان ميں کيوں اب تک پوليو وائرس کا خاتمہ نہيں ہو سکا؟
24 اکتوبر 2018آج دنیا بھر میں پولیو وائرس کے خلاف عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے،''ہماری حکومت پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کا پختہ عزم کيے ہوئے ہے۔ پولیو کے عالمی دن کے موقع پر میں اور میری قوم پر اعتماد ہیں کہ ہم اپنی آئندہ کی نسلوں کے ليے محفوظ، صحت مند اور پولیو سے پاک پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔‘‘
عالمی ادارہء صحت کی ویب سائٹ پر پولیو وائرس سے متعلق شائع ہونے والی معلومات کے مطابق جب تک پولیو وائرس دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود ہے، وہ پوری دنیا کے بچوں کے لیے خطرے کا باعث رہے گا۔
پاکستان میں پولیو مہم کے ترجمان بابر بن عطا نے ملک میں شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’دا نیوز‘ میں اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے، ’’ اس سال پاکستان میں پولیو کے چھ کیسز کی نشاندہی یہ ثابت کرتی ہے کہ ہم ہر بچے تک نہیں پہنچ پا رہے۔ پولیو کا ایک کیس بھی اس بیماری کے خلاف پاکستان کی بے پناہ کوششوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔‘‘ عطا نے اپنے مضمون میں ان ہزاروں پولیو ورکرز کو بھی خراج تحسین پیش کیا جن کی مدد سے ہر سال لاکھوں بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ عطا نے اپنے مضمون میں یہ سوال بھی اٹھایا کہ آخر کئی برسوں کی کوششوں اور ہیلتھ ورکرز کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود پاکستان کیوں اس وائرس کو ختم کرنے میں ناکام رہا ہے ؟
پولیو وائرس سے بچاؤ سے متعلق معلومات فراہم کرنے والی ویب سائٹ ’اینڈ پولیو‘ کے مطابق پاکستان میں 2014ء میں پولیو وائرس کا شکار بننے والے بچوں کی تعداد دو سو سے زائد تھی جبکہ 2015ء میں 54، سن 2016 میں بیس اور 2017ء میں پولیو وائرس سے سات بچے متاثر ہوئے۔
سوشل میڈیا پر بھی پولیو وائرس کے خلاف کام کرنے والے ادارے اور شخصیات اس مرض کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ پولیو کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں کے لیے معروف شخصیت بل گیٹس نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا، ’’جب تک پولیو وائرس موجود ہے، یہ دنیا بھر میں بچوں کے لیے خطرہ ہے۔ ہم اس بيماری کے انسداد کے ليے کوششيں جاری رکھنے والے ہیلتھ ورکرز، حکومتوں، اپنی ساتھی تنظیموں اور مالی مدد فراہم کرنے والے اداروں کا شکريہ ادا کرتے ہیں۔‘‘