پاکستان میں فلکیاتی تحقیق اب اردو زبان میں بھی ممکن
10 نومبر 2024پاکستان میں عام افراد خصوصا نوجوان اور بچے فلکیات میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں لیکن نہ تو یہاں فلکیات کو بطور مضمون نصاب میں شامل کیا گیا ہے اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں اس پر تحقیق کے لیے مناسب وسائل موجود ہیں۔ "ایوولیوشنری میپ آف دی یونیورس۔ریڈیو گلیکسی زو پراجیکٹ" نے اس حوالے سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اردو زبان میں ایک تحقیقی منصوبے کا آغاز کیا ہے۔ ا س میں ہر عمر کے افراد شرکت کر کے فلکیاتی تحقیق میں معاونت کر سکتے ہیں۔
ای ایم یو ریڈیو گلیکسی زو پراجیکٹ کیا ہے؟
ای ایم یو ریڈیو گلیکسی زو پراجیکٹ، ایوولیونری میپ آف دی یونیورس (اے ایس کے اے پی سروے) کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں آسٹریلین ایس کے اے پاتھ فائنڈر ٹیلی سکوپ کی مدد سے دنیا کا سب سے بڑا ریڈیو کنٹینیوم سروے مکمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ منصوبہ زونیورس پلیٹ فارم پر موجود ہے، جو 2009 سے دنیا کے سب سے بڑے سٹیزن سائنس پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہا ہے۔
ڈاکٹر سید فیصل الرحمن ای ایم یو ریڈیو گلیکسی زو کے پراجیکٹ سائنٹسٹ ہیں اور اس منصوبے کے اردو ترجمے کی ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔ انھوں نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی بات چیت میں بتایا کہ اس منصوبے میں دنیا بھر سے متعدد رضاکار شہری سائنسدان شامل ہیں، جن کی قیادت ایلینی وردولا اور ہونگ منگ تانگ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر فیصل کے مطابق اس پراجیکٹ کے ذریعے شہری سائنسدانوں کو موقع ملا ہے کہ وہ ایس کے اے پاتھ فائنڈر ٹیلی سکوپ سے حاصل ہونے والی ریڈیو اور آپٹیکل تصاویر سے ریڈیو ویووز خارج کرنے والی کہکشاؤں کی درجہ بندی میں مدد کریں۔
اس طرح سائنسدانوں کو ان کہکشاؤں کے ارتقاء کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
پراجیکٹ کا اردو ورژن اور پاکستان میں فلکیاتی تحقیق
ڈاکٹر فیصل الرحمن نے بتایا کہ ای ایم یو ریڈیو گلیکسی زو پراجیکٹ کو اب اردو، یونانی اور چینی زبانوں میں بھی شروع کیا جا رہا ہے تاکہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے محققین اس سے استفادہ کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ تر تحقیقی مواد انگریزی زبان میں دستیاب ہے، جسے پاکستان میں خصوصا طلباء کو سمجھنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ اس پراجیکٹ کے اردو ورژن کے آغاز سے پاکستان بھر میں طلبا و طالبات اور فلکیات کے شائقین کو موقع ملے گا کہ وہ ریڈیو فلکیات کے شعبے سے متعلق سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لے سکیں۔
ڈاکٹر فیصل کے مطابق اس سے پاکستان میں فلکیاتی تحقیق کو فروغ ملنے کے علاوہ بین الاقوامی تحقیقی اداروں کے ساتھ تعاون و اشتراک کے نئے در بھی وا ہوں گے۔
پاکستان میں فلکیاتی تحقیق ابھی ابتدائی مرحلے میں کیوں ہے؟
پاکستانی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل نوجوان ناسا، یورپین سپیس ایجنسی، اور دیگر فلکیاتی تحقیقی اداروں میں قابل ِ ذکر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود ملک میں فلکیاتی تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔
ڈاکٹر فیصل الرحمن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ پاکستانی تعلیمی نظام کو ساختی چیلنجوں کا سامنا ہے، جو دیگر علوم کی طرح فلکیات میں بھی ہماری محدود پیش رفت کی بنیادی وجہ ہیں۔ خصوصا کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد پاکستانی تعلیمی اداروں میں ہونے والی تحقیق کا معیار متاثر ہوا ہے۔
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی تحقیقی مواد کا انگریزی زبان میں ہونا بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔خاص طور پر ان ممالک میں جہاں انگریزی بنیادی زبان نہیں ہے۔ لہذا اردو میں آر جی زیڈ جیسے منصوبے اس خلا کو پر کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
ای ایم یو ریڈیو گلیکسی زو پراجیکٹ کی اہم تحقیقی پیش رفت
ڈاکٹر فیصل الر حمن نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ آر جی زیڈ بین الاقوامی محققین کے تعاون سے ریڈیو کہکشاؤں پر تحقیق کو آگے بڑھا رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر میکاہ باؤلز کی سربراہی میں حال ہی میں ایک اہم تحقیقی پیش رفت ہوئی ہے جو رائل ایسٹرانامیکل سوسائٹی کے ماہانہ نوٹسز میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں مشین لرننگ کی مدد سے سائنسدانوں نے ریڈیو کہکشاؤں کی بناوٹ اور معنوی درجہ بندی سے متعلق اہم معلومات حاصل کی ہیں۔
یہ تحقیقی نتائج دنیا بھر کے شہری سائنسدانوں کو دستیاب ہیں تاکہ مستقبل میں اس حوالے سے مشترکہ تحقیق کو آگے بڑھایا جا سکے۔ ڈاکٹر فیصل کے مطابق اب پاکستان سے کسی بھی تعلیمی لیول کے طلباء زونیورس پلیٹ فارم پر آر جی زیڈ منتخب کر کے ریڈیو کہکشاؤں کی درجہ بندی میں با آسانی حصہ لے سکتے ہیں۔ جس کے لئے کسی جدید سائنسی تربیت کی ہر گز ضرورت نہیں ہے۔