پاکستان میں گھریلو ملازمہ کو زندہ جلا دیا گیا
9 اگست 2017صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے بدھ نو اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پولیس نے بتایا کہ صوبائی دارالحکومت سے قریب 60 میل یا 95 کلومیٹر مشرق کی طرف واقع ننکانہ صاحب نامی علاقے میں قتل کی گئی اس گھریلو ملازمہ کا نام فوزیہ بی بی تھا۔
جعفر حسین نامی ایک پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ فوزیہ بی بی اور اس کا شوہر گزشتہ پانچ ماہ سے ایک مقامی زمیندار کے گھر پر ملازمین کے طور پر کام کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے اپنے آجر خاندان سے 25 ہزار پاکستانی روپے یا قریب 237 امریکی ڈالر کے برابر رقم قرض کے طور پر لے لی تھی۔‘‘
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مقتولہ اور اس کے شوہر کو ان کی درخواست پر یہ رقم ان کی ایڈوانس تنخواہوں کے طور پر دی گئی تھی۔ پولیس کے مطابق اس جوڑے کے آجرین میں متعلقہ زمیندار اور اس کا بیٹا شامل ہیں، جنہوں نے جب فوزیہ اور اس کے شوہر سے قرض کی رقم کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ اپنی ملازمت چھوڑنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
بھارت میں مزدور غلام بچوں کی تعداد ’لرزہ خیز‘ حد تک زیادہ
قرضے کے بوجھ تلے دبے جبری مزدور
پولیس اہلکار جعفر حسین نے بتایا، ’’اس جوڑے کے پاس قرض کی واپسی کے لیے کوئی رقم تھی ہی نہیں۔ اس پر متعلقہ لینڈ لارڈ اور اس کے بیٹے نے فوزیہ کے شوہر کو پیٹا اور اسے ایک کمرے میں بند کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے فوزیہ بی بی پر پٹرول چھڑک کر اسے آگ لگا دی۔‘‘
بعد ازاں اس بری طرح جھلسی ہوئی گھریلو ملازمہ کو علاج کے لیے فیصل آباد کے ایک ہسپتال میں پہنچا دیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔ اس جرم کے ارتکاب کی تصدیق کرتے ہوئے ایک دوسرے مقامی پولیس اہلکار اصغر شاہین نے بتایا کہ اس قتل کے دونوں مشتبہ ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بھارتی ٹیکسٹائل صنعت میں لاکھوں خواتین جدید غلامی کا شکار
مقتولہ فوزیہ بی بی کے بہنوئی محمد عامر نے بتایا کہ اس جرم کے مرتکب زمیندار اور اس کے بیٹے کی طرف سے فوزیہ اور اس کے شوہر پر اکثر تشدد کیا جاتا تھا۔ محمد عامر نے اے ایف پی کو بتایا، ’’گھریلو ملازمین کے طور پر وہ (ملزمان) تو انہیں نہ کوئی تنخواہ دیتے تھے اور نہ ہی کھانا۔‘‘
پاکستان میں گھریلو ملازموں خاص طور پر ملازماؤں پر تشدد اور کئی مرتبہ ان کے جنسی استحصال کے واقعات اکثر دیکھنے میں آتے رہتے ہیں۔ غربت کے مارے ایسے شہریوں کے پاس اکثر وسائل کی شدید کمی ہوتی ہے، ان کے آجرین سماجی اور اقتصادی طور پر بااثر ہوتے ہیں اور ایسے گھریلو ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ملک میں مؤثر قوانین کا بھی فقدان ہے۔