پاکستان نے بون کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا
29 نومبر 2011لاہور میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کا یہ اجلاس نیٹو حملے کے بعد کی صورتحال پر غور کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان نے بون کانفرنس کی کامیابی کی خواہش کا بھی اظہار کیا تاہم بیان میں کہا گیا ہے کہ خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال اور موجودہ حالات میں اس نے بون کانفرنس میں شمولیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجلاس کے بعد جاری بیان میں پاکستان نے ایساف اور نیٹو کی طرف پاکستانی فوجیوں پر کیے جانے والے حملوں کی مذمت اور انہیں پاکستان کی سالمیت پر حملہ قرار دیا گیا۔ پاکستان نے افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے اپنی حمایت دہراتے ہوئے یہ توقع ظاہر کی کہ عالمی برادری افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے بون کانفرنس میں اپنے عزم کا اعادہ کرے گی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوجی چوکیوں پر نیٹو حملے پارٹنرشپ کے جذبے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ بیان میں عالمی برادری پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے منافی ایسے حملوں کو رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے، کیونکہ اس سے خطے میں امن کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
کابینہ کے اجلاس میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا، جس میں نیٹو حملے کو زیر بحث لایا جائے گا۔ کابینہ نے قومی سلامتی کی کمیٹی کے فیصلوں کی بھی توثیق کی۔ تقریباً تین گھنٹے جاری رہنے والے اس اجلاس میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کابینہ کے ارکان کو اس حملے کے بعد مختلف ملکوں سے ان کے ہونے والے رابطوں کے بارے میں بریفنگ بھی دی۔ اس موقع پر نیٹو کی بمباری سے مرنے والے پاکستانی فوجیوں کی مغفرت کے لیے دعا بھی کی گئی۔
ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ماہرین نے بون کانفرنس کے بائیکاٹ کے فیصلے کو اہمیت کا حامل قرار دیا۔ پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان کے مطابق بون کانفرنس میں عدم شمولیت کا فیصلہ پاکستان کو بادل نخواستہ کرنا پڑا ہے۔ ان کے بقول پاکستان کی رائے عامہ نیٹو اتحاد میں ملک کی شمولیت پر خوش نہیں ہے۔ پاکستان میں الیکشن قریب ہیں اور حکومت کے لیے عوام کی مرضی کے خلاف چلنا آسان نہیں رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے ہمیشہ امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کو افغانستان میں قیام امن کے لیے بات چیت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس وجہ سے پاکستان کوکافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
تنویر احمد خان کے بقول نیٹو اور اس کے اتحادیوں کے حملوں سے اب تک تقریباً ستر پاکستانی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بون کانفرنس کا مقصد نیٹو کے طے شدہ ایجنڈے کو آگے بڑھانا اور پاکستان کو پس منظر میں دھکیلتے ہوئے بھارت کو افغانستان میں زیادہ رول دینا تھا تو پاکستان کو اس کی عدم شمولیت کے فیصلے سے بڑا نقصان ہونے کا امکان نہیں ہے۔ ان کے بقول اگر پاکستان نیٹو کی سپلائی لائن روکنے، شمسی ایئر بیس خالی کرانے اور خفیہ معلومات شیئر نہ کرنے کے فیصلے پر چند ہفتے ہی عمل کر لے تو نیٹو کے رویے میں تبدیلی آسکتی ہے۔
ادھر عالمی امور کے ماہر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ افغانستان سے سب سے زیادہ متعلق ملک پاکستان ہے اور اس کی طرف سے کانفرنس میں عدم شمولیت کے فیصلے سے بون کانفرنس کی افادیت میں کمی ہو گی۔ ان کے بقول آنے والے دنوں میں پاکستان پر دوست ممالک کی طرف سے یہ فیصلہ واپس لینے کے حوالے سے سفارتی دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی بڑھنے کی وجہ سے پاکستان کو اقتصادی اور فوجی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پر سکتا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت : عدنان اسحاق