پاکستان نے نیٹو حملے کی تحقیقاتی رپورٹ مسترد کر دی
23 دسمبر 2011پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس نے کہا ہے کہ ان کا ملک اس رپورٹ کے نتائج سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ان میں پورے حقائق بیان نہیں کیے گئے۔
ایک دن قبل جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دونوں فریقوں کے درمیان رابطوں اور تعاون کے فقدان کے باعث یہ واقعہ پیش آیا جس میں چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
امریکی تحقیقات کی قیادت کرنے والے بریگیڈیر جنرل اسٹیفن کلارک نے کہا کہ واقعے کے روز پاکستانی سرحد کے نزدیک ایک مقام سے نیٹو کی فورسز پر مارٹر گولوں اور مشین گن سے فائرنگ کی گئی۔ امریکی اہلکاروں اور ان کے ساتھ موجود ایک پاکستانی سرحدی رابطہ افسر نے غلط تجزیے کی بناء پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہاں کوئی پاکستانی فوجی موجود نہیں۔ اس پر نیٹو نے کارروائی کرنے کے لیے ایک ایف 15 اور ایک اے سی 130 ہوائی جہاز وہاں بھیجے۔
ان کے بقول مسئلہ یہ بھی تھا کہ امریکہ فوجیوں کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ پاکستانی رابطہ افسران کو اپنے جغرافیائی تجزیوں کے بارے میں درست معلومات فراہم نہ کریں کیونکہ دونوں فریقوں کے درمیان کچھ عرصے سے اعتماد کا فقدان چلا آ رہا ہے۔
امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کو تحقیقات کے نتائج کے بارے میں مطلع کریں گے اور وہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کے اہل خانہ کو معاوضے کی ادائیگی کے لیے بھی تیار ہیں۔
اہلکاروں کے بقول امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی نے رپورٹ کے بارے میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے بھی فون پر بات کی۔
چھبیس نومبر کے واقعے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ پاکستان نے اس واقعے کے بعد افغانستان میں نیٹو فورسز کو رسد کی فراہمی کے لیے اپنی سرزمین کا استعمال بند کر دیا تھا اور اس نے امریکہ سے بلوچستان کی شمسی ایئر بیس بھی خالی کروا لی تھی جسے امریکہ اپنے ڈرون طیاروں کے لیے استعمال کرتا رہا تھا۔ اگرچہ نیٹو نے اس حملے کی تحقیقات کے لیے پاکستان کو شمولیت کی دعوت دی تھی مگر پاکستان نے اس میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔
امریکی حکام نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار تو کیا ہے مگر تاحال کوئی باضابطہ معذرت نہیں کی۔
رپورٹ: حماد کیانی
ادارت: عابد حسین