1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی و تجارتی تعلقات سے انکار

3 اپریل 2023

ایک پاکستانی تاجر کی اسرائیل کو اشیائے خوراک کی برآمد سے متعلق ٹویٹ نے ملک میں بڑے پیمانے پر رد عمل کو جنم دیا تھا۔ پاکستانی وزارت خارجہ اور وزارت تجارت نے الگ الگ بیانات میں اسرائیل سے کسی بھی تعلق کی تردید کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4PcaN
Bildkombo Flaggen Pakistan und Israel

پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ  تجارت کرنے سے متعلق افواہوں کی تردید کی ہے۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے یہ تردید اتوار کے روز ایک پاکستانی یہودی تاجر کی جانب سے اشیائے خوراک کے نمونوں کی یروشلم اور حیفہ کو کامیاب برآمد سے متعلق ایک ٹویٹ کے جواب میں جاری کی گئی۔

Israel Jerusalem | Felsendom
پاکستان ایک ایسی آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتا ہے، جس کا دارلحکومت مشرقی بیت المقدس ہوتصویر: Alex Feldmann/Geisler-Fotopress/picture alliance

کراچی میں مقیم پاکستانی نژاد یہودی تاجر فشل بن خلد کی اپنی پہلی کوشر فوڈ شپمنٹ اسرائیل بھجوائے جانے سے متعلق ٹویٹ وائرل ہو گئی تھی۔ پاکستان اور اسرائیل  کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس تاجر نے گزشتہ ہفتے کی گئی اپنی ٹویٹ میں لکھا تھا، ''ایک پاکستانی کے طور پر مجھے مبارک ہو۔ میں نے پاکستانی فوڈ پراڈکٹس کی پہلی کھیپ اسرائیل کو برآمد کی ہے۔‘‘

فشل بن خلد نے ایک اپنے اسرائیلی مارکیٹ کے دورے کا ایک ویڈیو کلپ بھی شیئر کیا۔ اس ویڈیو کلپ میں وہ کھجوروں، خشک میووں اور مصالحہ جات کے اسٹالز کے سامنے سے گزرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان اشیاء پر عبرانی زبان میں ٹیگ لگے گئے تھے۔

سفارتی اور تجارتی تعلقات سے انکار

پاکستان نے اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے سفارتی اور تجارتی تعلقات سے انکار کیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ تجارت سے متعلق میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا، ''پالیسی (اسرائیل سے متعلق) میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘‘

اسرائیل کا دورہ، پاکستانی صحافی کو نوکری پر بحال کرنے کا مطالبہ

پاکستان سرکاری طور پر اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازعے کے خاتمےکے لیے دو ریاستی حل کی حمایت کر تا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کا یہ دیرینہ موقف رہا  ہے کہ وہ اس وقت تک اسرائیل کا وجود تسلیم نہیں کرے گا، جب تک انیس سو سڑسٹھ سے قبل کی سرحدوں کے تحت اور  مشرقی یروشلم کے دارالحکومت کے ساتھ  ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا۔

پاکستانی وزارت تجارت کے مطابق اسرائیل کے ساتھ دوطرفہ تجارت کی افواہیں 'محض پراپیگنڈہ‘ ہیں۔ اس وزارت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''نہ تو ہمارے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی ہم انہیں قائم کرنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔‘‘

Pakistans Importe bedroht, da die Devisenreserven ein Achtjahrestief erreichten
پاکستانی فوڈ آئٹمز خصوصاﹰ چاولوں، پھلوں اور محصالحہ جات کی پوری دنیا میں مانگ ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

فشل بن خلد پاکستان میں 220 ملین کی مسلم اکثریتی آبادی میں گھٹتی ہوئی یہودی برادری کا حصہ ہیں۔ اگرچہ ان کے پاکستانی پاسپورٹ پر یہ تحریر واضح ہےکہ یہ سفری دستاویز اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے سفر کے لیےکارآمد ہے لیکن وہ پہلے پاکستانی ہیں، جنہوں نے سرکاری طور پر اسلام آباد کی اجازت سے اسرائیل میں مقدس مقامات کی زیارت کر رکھی ہے۔

خورشید قصوری اور اسرائیلی وزیر خارجہ کی خفیہ ملاقات کی کہانی

بن خلد  نے اپنی ٹویٹ میں کہا، ''خوراک، تجارت، موسیقی اور سیاحت لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ آئیے پل بنائیں۔‘‘ بن خلد نے یروشلم میں تین کاروباری افراد کو فوڈ آئٹمز کے نمونے بھجوائے اور وزارت تجارت کے مطابق انہوں نے متحدہ عرب امارات کے راستے حیفہ جاکر اشیائے خوراک کی نمائشوں میں ان سے ملاقات کی۔ اس وزارت کے مطابق بن خلد کی کھیپ کو پاکستانی حکومت کی طرف سے اسپانسر نہیں کیا گیا تھا اور اس میں کوئی بینکنگ یا سرکاری چینل شامل نہیں تھا۔

قبل ازیں یہودیوں کی ایک امریکی تنظیم امریکن جیوئش کانگریس نے بھی اس تجارتی کھیپ کی خبروں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے دونوں ممالک کی معیشتوں پر اور بڑے پیمانے پر خطے کے لیے بھی وسیع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس تنظیم کا کہنا تھا کہ بن خلد ایک چھوٹی لیکن بڑھتی ہوئی پاکستانی کوشر انڈسٹری کا مرکز ہیں جو مختلف مقامات پر خوراک برآمد کرتی ہے۔

اسرائیل کو تسلیم کرنےکے لیے پاکستان پر دباؤ ہے، ’نہیں ہے‘

لیکن بن خلد کے اس منصوبے کے بارے میں پاکستان میں ملی جلی رائے کا اظہار کیا گیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی کی ایک اہم رہنما اور سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا کہ ایک پاکستانی شہری کیسے براہ راست اسرائیل کو برآمدات کر رہا ہے اور پاکستانی پاسپورٹ پر اس ملک کا دورہ بھی کر رہا ہے۔ لیکن موجودہ انتظامیہ کے ایک بین المذاہبی نمائندے، طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ بن خلد کو عمران خان کے دور حکومت میں اسرائیل جانے کی اجازت دی گئی تھی۔

ش ر ⁄ ع ا، م م (اے پی)