1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کا سیاسی منظر نامہ: عدم استحکام کے بھڑتے خدشات

عبدالستار، اسلام آباد
20 مئی 2022

عمران خان کی حکومت ختم ہوئے کئی دن ہو چکے ہیں لیکن مبصرین کے خیال میں ملک میں ابھی تک سیاسی استحکام نہیں آیا اور سیاسی عدم استحکام کے بادل آج بھی منڈلا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Be1V
Pakistan Islamabad | Aiwan-e-Sadr - "President House"
تصویر: Muhammad Reza/AA/picture alliance

آج الیکشن کمیشن پاکستان نے پی ٹی آئی کے 25 منحرفین کو ان کی نشستوں سے ہٹا دیا ہے۔ ایک روز قبل مولانا فضل الرحمان نے ملکی اداروں سے درخواست کی تھی کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ سپریم کورٹ نے بھی کل ایک ایسا فیصلہ دیا جس پر ن لیگ تنقید کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ کی ’ہائی پروفائل‘ مقدمات کے بارے میں ہدایات: خیر مقدم بھی تنقید بھی

کچھ ایسی بھی خبریں ہیں کہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک  باقر رضا، سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور سابق مشیر خزانہ شوکت ترین نے فوجی قیادت سے ملاقاتیں کیں ہیں۔ان تمام عوامل کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا تاثر ابھر رہا ہے اور کئی مبصرین کا خیال ہے ہے کہ حکمران اتحاد کنفیوژن کا شکار ہے۔

Prime Minister Shahbaz Sharif
شہباز شریف متحرک ہو کر حکومت  چاہتے ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام لانا چاہتے ہیںتصویر: National Assembly of Pakistan/AP/picture alliance

واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام اور قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے بھی پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے متضاد بیانات آرہے ہیں۔  ایک طرف شہباز شریف متحرک ہو کر حکومت  چاہتے ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام لانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مریم نواز کہتی ہیں ہیں کہ عوام پر بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ حکومت چھوڑ دی جائے۔ تیسری طرف وفاقی وزیر برائے تجارت خرم دستگیر کہتے ہیں کہ حکومت کو معاشی فیصلے کرنے چاہیے۔

حکمران اتحاد کے بیانات میں تضاد

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر امان میمن کہتے ہیں، کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے بیانات میں تضاد ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا۔"مریم سخت بیانات دیتی ہیں جبکہ شہباز شریف معاملات کو سلجھانا چاہتے ہیں، ن لیگ میں کچھ لوگ فوری الیکشن جاتے ہیں اور کچھ مدت پوری کرنا چاہتے ہیں، شہباز ایسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن فضل الرحمن عمران خان کی طرح اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر ان سے حکومت کے مطالبات منوانا چاہتے ہیں، ان تمام چیزوں کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔‘‘

Pakistan | Imran Khan Demonstration in Lahore
عمران خان نے اپنے جلسوں سے حکومت کو کسی حد تک پریشان کر رکھا ہے

حکومت مشکل میں

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک اور تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے حکومت سخت پریشان ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر حکومت آئل کی قیمتیں بڑھاتی ہے تو اسے سیاسی محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اگر نہیں بڑھاتی تو تو آئی ایم ایف سے سے پیسے ملنے مشکل ہوں گے، جس سے معیشت متاثر ہوگی، ایسے میں حکومت کو گھر چلا جانا چاہیے۔"

پاکستان میں امریکی ڈالر کو پر لگ گئے

الیکشن اصلاحات

تاہم ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ہر حالت میں الیکشن اصلاحات کرانا چاہتی ہے،"حزب اختلاف انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتی کیونکہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اگر ووٹ کا حق ملتا ہے، تو عمران خان کو فائدہ ہوگا، اور شہباز شریف کبھی ایسا نہیں چاہیں گے۔"

Pakistan Miftah Ismail
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے ساتھ مذاکرات موجودہ حکومت کے وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: PPI/ZUMAPRESS/picture alliance

فضل الرحمان کس سے مدد مانگ رہے ہیں

ڈاکٹر امان میمن کا کہنا تھا کہ عمران خان  کے بڑے جلسوں کی وجہ سے ایسٹیبلشمنٹ کا نقطہ نظر تبدیل ہو رہا ہے۔ "سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور عمران خان کی ملاقات کے بعد ایسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں تعلقات بہتر ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی پی ٹی آئی کے لیے بہتر ہے اور ن لیگ کے لیے پریشان کن، فضل الرحمان عمران خان کی طرح اداروں پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسٹیبلشمنٹ کھل کر موجودہ سیٹ اپ کی حمایت کرے تاکہ حکومت اپنی مدت پوری کر سکے۔"

پاکستانی معیشت ’انتہائی نگہداشت‘ وارڈ میں

ڈاکٹر میمن کے بقول جس طرح سوشل میڈیا پر حمزہ شہباز کے پولٹری فارم کی مبینہ ویڈیو وائرل کی گئی ہے اور جس طرح لوگ مرغیاں لوٹ کر لے کر جا رہے ہیں۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ،'' آنے والے دنوں  میں ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔"