پاکستان کا سیاسی منظر نامہ: عدم استحکام کے بھڑتے خدشات
20 مئی 2022آج الیکشن کمیشن پاکستان نے پی ٹی آئی کے 25 منحرفین کو ان کی نشستوں سے ہٹا دیا ہے۔ ایک روز قبل مولانا فضل الرحمان نے ملکی اداروں سے درخواست کی تھی کہ وہ حکومت کا ساتھ دیں۔ سپریم کورٹ نے بھی کل ایک ایسا فیصلہ دیا جس پر ن لیگ تنقید کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ کی ’ہائی پروفائل‘ مقدمات کے بارے میں ہدایات: خیر مقدم بھی تنقید بھی
کچھ ایسی بھی خبریں ہیں کہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا، سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ اور سابق مشیر خزانہ شوکت ترین نے فوجی قیادت سے ملاقاتیں کیں ہیں۔ان تمام عوامل کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا تاثر ابھر رہا ہے اور کئی مبصرین کا خیال ہے ہے کہ حکمران اتحاد کنفیوژن کا شکار ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام اور قبل از وقت انتخابات کے حوالے سے بھی پی ڈی ایم کے رہنماؤں کے متضاد بیانات آرہے ہیں۔ ایک طرف شہباز شریف متحرک ہو کر حکومت چاہتے ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام لانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف مریم نواز کہتی ہیں ہیں کہ عوام پر بوجھ ڈالنے سے بہتر ہے کہ حکومت چھوڑ دی جائے۔ تیسری طرف وفاقی وزیر برائے تجارت خرم دستگیر کہتے ہیں کہ حکومت کو معاشی فیصلے کرنے چاہیے۔
حکمران اتحاد کے بیانات میں تضاد
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ڈاکٹر امان میمن کہتے ہیں، کہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے بیانات میں تضاد ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا۔"مریم سخت بیانات دیتی ہیں جبکہ شہباز شریف معاملات کو سلجھانا چاہتے ہیں، ن لیگ میں کچھ لوگ فوری الیکشن جاتے ہیں اور کچھ مدت پوری کرنا چاہتے ہیں، شہباز ایسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن فضل الرحمن عمران خان کی طرح اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر ان سے حکومت کے مطالبات منوانا چاہتے ہیں، ان تمام چیزوں کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔‘‘
حکومت مشکل میں
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک اور تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے حکومت سخت پریشان ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر حکومت آئل کی قیمتیں بڑھاتی ہے تو اسے سیاسی محاذ پر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن اگر نہیں بڑھاتی تو تو آئی ایم ایف سے سے پیسے ملنے مشکل ہوں گے، جس سے معیشت متاثر ہوگی، ایسے میں حکومت کو گھر چلا جانا چاہیے۔"
پاکستان میں امریکی ڈالر کو پر لگ گئے
الیکشن اصلاحات
تاہم ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ یہ حکومت ہر حالت میں الیکشن اصلاحات کرانا چاہتی ہے،"حزب اختلاف انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن نہیں جیت سکتی کیونکہ بیرون ملک پاکستانیوں کو اگر ووٹ کا حق ملتا ہے، تو عمران خان کو فائدہ ہوگا، اور شہباز شریف کبھی ایسا نہیں چاہیں گے۔"
فضل الرحمان کس سے مدد مانگ رہے ہیں
ڈاکٹر امان میمن کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بڑے جلسوں کی وجہ سے ایسٹیبلشمنٹ کا نقطہ نظر تبدیل ہو رہا ہے۔ "سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور عمران خان کی ملاقات کے بعد ایسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں تعلقات بہتر ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی پی ٹی آئی کے لیے بہتر ہے اور ن لیگ کے لیے پریشان کن، فضل الرحمان عمران خان کی طرح اداروں پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ایسٹیبلشمنٹ کھل کر موجودہ سیٹ اپ کی حمایت کرے تاکہ حکومت اپنی مدت پوری کر سکے۔"
پاکستانی معیشت ’انتہائی نگہداشت‘ وارڈ میں
ڈاکٹر میمن کے بقول جس طرح سوشل میڈیا پر حمزہ شہباز کے پولٹری فارم کی مبینہ ویڈیو وائرل کی گئی ہے اور جس طرح لوگ مرغیاں لوٹ کر لے کر جا رہے ہیں۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ،'' آنے والے دنوں میں ملک میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا۔"