لیکن کسی نے طبی کارکردگی پر کوئی بھی منفی لفظ نہیں کہا بلکہ کافی لوگوں سے خلاف توقع تعریف سنی۔ عام تاثر کے بر خلاف، جو بات عیاں ہوئی وہ یہ تھی کہ ملک میں آج بھی بہت سے ایسے طبیب پائے جاتے ہیں، جن کے دل میں سیلاب زدگان کی خدمت اور انسانی ہمدردی کا جذبہ موجود ہے۔ اُنہوں نے بیماروں اور زخمیوں کی بے لوث خدمت کی اور صحیح معنوں میں ان کے زخموں پر مرہم رکھا۔
البتہ جس بات پر افسوس ضرور ہوا وہ یہ کہ سرکاری طبی اداروں نے اپنے طور سے یا حکومت کے کہنے پر ایساکوئی اقدم نہیں لیا، جس سے سیلاب زدگان کی تکلیف کا ذرا بھی ازالہ ہوا ہو۔ چونکہ پاکستان میں سرکاری ہسپتالوں کا نظام اتنا بگڑ چکا ہے کہ عام طور پر یہ توقع ہی نہیں تھی کہ سرکاری ادارے قدرتی سانحات میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس منظر نامے میں ایک واحد ادارہ ایسا تھا، جس کا کردار بلکل ہی منفرد نکلا۔ یہ ہے توسرکاری ادارہ لیکن سندھ اسمبلی کے بنائے ہوئے ایک قانون کے تحت اس ادارے کو اپنے اندرونی معاملات میں خود مختاری حاصل ہے۔ وہ ادارہ ہے، سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (SIUT) اور اس کے سربراہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ہیں۔
ہر مشکل کی طرح اس موقع پر بھی ڈاکٹر رضوی نے فیصلہ کیا کہ سیلاب سے متاثرہ علا قوں میں ان کے کیمپس لگائے جائیں گے اور ڈاکٹروں کے ساتھ دیگر عملہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس طرح SIUT نے آٹھ کیمپس لگائے۔ SIUT پاکستان اور طب کی بین الاقوامی دنیا میں جانا پہچانا نام ہے۔
SIUT کو شہرت 1971ء میں ملی۔ اسی سال ادیب صاحب برطانیہ سے طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان لوٹے تھے۔ ان کا دل اس ملک کے عوام کی خدمت کے جذبے سے سرشار تھا۔ کراچی کے سول ہسپتال میں انہوں نے سات بستروں پر مبنی کڈنی وارڈ کی بنیاد ڈالی، جو کہ اب بڑھتے بڑھتے ایک خود مختار ہسپتال کی حیثیت حاصل کر چکا ہے اور اب اس میں 1200بستر ہیں ۔ سن 2021ء میں اس میں 30 لاکھ مریضوں کا علاج کیا گیا۔ بہت سے مریض پاکستان کے دور دراز علاقوں سے آتے ہیں۔
ان کا علاج 670 ماہرین کرتے ہیں اور ان کی نئی زندگی کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ حقیت تو یہ ہے کہ اگر گردے کی بیماری کا وقت پر علاج نہ ہو تو وہ جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ گردے اگر کام کرنا بند کر دیں تو مریض کے جسم میں زہریلا مواد جمع ہونے لگتا ہے اور مریض کی جان بچانے کے لیے دو طریقے ہوتے ہیں۔
ایک یہ کہ ڈائیلاسز کے ذریعے اس کو زندہ رکھا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس کے گردے کی پیوندکاری کی جائے، جس کی سخت شرائط ہیں۔ مریض کے کسی قریبی رشتے دار کا ٹشو میچ کرتا ہو اور وہ خوشی خوشی اپنا عضو دینے کو رضامند ہو۔ ان تمام مشکلات کے باجود اس ادارے نے 1985ء سے اب تک 6693 گردے پیوند کیے ہیں اور 2021ء میں 412,000 ڈائیلاسز کے سیشن کیے گئے۔
یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ SIUT ہے تو گردوں کی بیماری کا ہسپتال لیکن اس میں اور بیماریوں کا علاج بھی ہوتا ہے کیوں کہ اب تحقیق اور مشاہدے سے اس بات کی تصدیق ہو چکی ہے کہ گردوں کی بیماری اپنے ساتھ بہت سے دیگر امراض بھی لے آتی ہے۔ مثلاﹰ ذیابیطس، سرطان، جگر کی تکالیف وغیرہ وغیرہ۔
ادیب الحسن رضوی: پاکستان کے ’کرشمہ ساز مسیحا‘
ان تمام امراض کا علاج اس ادارے میں ہی ہو جاتا ہے، جس کے لیے 72 شعبے بنائے گئے ہیں تاکہ مریضوں کو اِدھر اُدھر دھکے نہ کھانا پڑیں۔ ہر قسم کے قیمتی آلات اور مشینیں یہاں پر موجُود ہیں، جس کی وجہ سے یہ دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک کےبہترین ہسپتال سے کم نہیں۔
ڈاکٹر ادیب کا فلسفہ ہے کہ صحت کی حفاظت انسان کا بنیادی حق ہے۔ جس طرح ہر بچہ تعلیم کا حق دار ہے لہذا ہر شہری کو یہ دونوں حقوق فراہم ہونا چاہئیں۔ اُن کا اسرار ہے کہ انسان کی عزت نفس کا خیال رکھنا بھی اُتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ اس کی جسمانی صحت کا۔ و ہ اس بات کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں کہ ایک مریض کی معاشی حالت پر پوچھ گچھ کی جائے، جس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہو کہ وہ شخص علاج معالجہ کا خرچ برداشت کر سکتا ہے یا نہیں۔
عام طور پر پاکستان میں تمام بڑے ہسپتال یہی طریقہ استعمال کرتے ہیں، جب کسی کا رعایتی علاج کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب سب سے یکسانیت سے پیش آتے ہیں۔ ان کے یہاں امیر و غریب سب آتے ہیں اور کہیں بھی ان سے پیسے نہیں مانگے جاتے۔ یہاں تک کہ SIUT میں کوئی کیش کاؤنٹر ہی نہیں۔
تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ خرچ کون برداشت کرتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر ادیب کے پاس ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہسپتال صرف حکومت کا ہی نہیں، لوگوں کا بھی ہسپتال ہے۔ سرکار اس کا سالانہ خرچہ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ عوام بے تہاشہ چندہ دیتے ہیں۔ بڑے بڑے کاروباری اشخاص نے کروڑوں روپے فراخ دلی سے عطیہ دیے ہیں۔
معمولی حیثیت کے لوگ بھی اس کی قدر دانی کا اظہار کرتے ہوئے کچھ نہ کچھ رقم دے دیتے ہیں۔ ادیب صاحب ان کے عطیات کی سب سے زیادہ قدر کرتے ہیں۔ عوام اور SIUT کا یہ رشتہ اس ادارے کی کار کردگی اور اس کے عملے کی خدمت کے جذبے کی وجہ سے مضبوط ہوا ہے۔ ان میں ایک اپنائیت کا احساس پیدا ہو گیا ہے۔
اس وجہ سےSIUT نے سماجی بہبود کے لیے ایسے بھی کام کیے ہیں، جو عام طور پر ایک ہسپتال نہیں کرتا۔ بچوں میں صحت کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کی خاطر وقتاً فوقتاً پروگرام منعقدکیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اعضاء کی خرید و فروخت کا گھناؤنا کاروبار ختم کرنے کے لیے SIUT کے اصرار پر قومی اسمبلی نے ایک قانون بنایا۔
Transplantation of Human Organs and Tissues Act (THOTA) نے انسانی اعضاء کی خرید و فروخت کی ممانعت کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے ملک کو اس بد نامی سے چھٹکارا، ملا جس سے وہ پہلے دو چار تھا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب SIUT پاکستان میں رہ کر صحت کے نظام کا اعلیٰ نمونہ پیش کر سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں صحتِ عامہ کے ناکارہ شعبے میں اصلاحی اقدامات نہیں لیے جا سکتے؟
ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہر ادارے میں ادیب رضوی موجود نہیں۔ دوسرے ہماری حکومت کا طریقۂ کار شفاف نہیں ہے اور نہ اس میں خوش اسلوبی سے کام کرنے کی صلاحیت ہے۔ اگر ان کمزوریوں کی طرف توجہ دی جانے لگے تو وسائل کا کوئی مسئلہ نہ ہو گا۔ عوام میں اعتماد پیدا ہو گا اور وہ ضرور وسائل مہیا کریں گے، جیسے وہSIUT اور دیگر نجی اداروں کے لیے کرتے ہیں۔
یہاں اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ نجی شعبے کو بے لگام نہ چھوڑا جائے۔ اس پر قوانین کے ذریعے جائز پابندیاں لگائی جائیں تاکہ اس وقت صحت کے شعبے میں، جو لوٹ مار کا بازار گرم ہے، وہ ختم ہو اور ایک مساوی نظام قائم ہو۔
اس سے بڑھ کر نا انصافی کیا ہو سکتی ہے کہ پاکستان کا مراعات یافتہ طبقہ اپنا علاج نجی ہسپتالوں میں کروائے اور پاکستان کے غریب عوام سرکاری ہسپتالوں میں جائیں۔ ان کی خستہ حالی کا میں کیا رونا روؤں؟
ان کے پاس ادویات کے اور نہ ہی مرہم پٹی کے پیسے ہوتے ہیں۔ جہاں تک سرکاری افسروں کا سوال ہے، وہ تو مہنگے مہنگے نجی ہسپتالوں میں اپنا علاج کرواتے ہیں اور ان کے اخراجات حکومت سرکاری خزانے سے ادا کرتی ہے۔ یہاں تک کہ سابق افسران کو بھی یہ رعایت حاصل ہے جبکہ اس پیسے کے صحیح حق دار سرکاری ہسپتال ہیں۔ کیا اس کو سماجی انصاف کہتے ہیں؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔