USA Pakistan
30 نومبر 2011’’پاکستان نے بون کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کے فیصلے کا جواز پاکستانی سرزمین پر نیٹو کے اُس فضائی حملے کے ذریعے اپنی حاکمیت اعلیٰ کی خلاف ورزی کو قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں چوبیس پاکستانی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کا پس منظر تاحال غیر واضح ہے۔ پاکستان کے متعدد بڑے شہروں میں مذہبی انتہا پسندوں نے بڑے احتجاجی مظاہرے منظم کیے ہیں۔ حکومت نے بھی فوری رد عمل ظاہر کیا اور کراچی سے افغانستان کو جانے والی اُن اہم شاہراہوں کو نیٹو کے لیے بند کر دیا، جن کے راستے مغربی دفاعی اتحاد کے دستوں تک سامان رسد پہنچایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں امریکہ کو وہ فضائی اڈہ بھی خالی کر دینے کے لیے کہہ دیا گیا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امریکہ اُسے پاک افغان سرحدی علاقے میں ڈرون حملوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ماضی میں بھی دو طرفہ تلخیوں کی صورت میں پاکستان کی طرف سے اِس طرح کے اقدامات کیے گئے لیکن پھر واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو خطرے میں ڈالنے سے بچانے کے لیے جلد ہی خاموشی سے واپَس بھی لے لیے گئے۔ اس بار لیکن حالات کو معمول پر لانے کی بجائے صورتِ حال کو اور زیادہ شدید ہونے دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ ظاہر ہے یہ ہے کہ بون میں پاکستان کے انتہائی اہم مفادات داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔
پاکستان افغانستان سے مغربی دُنیا کے فوجی دستوں کے انخلاء کے بعد بھی اس ملک میں اپنے اثر و رسوخ کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان خاص طور پر سرحدی علاقے کے آس پاس کے علاقے کو اپنے زیر کنٹرول دیکھنا چاہتا ہے تاکہ بھارت کے ساتھ پھر سے کسی جنگ کی صورت میں اِس علاقے کو تزویراتی گہرائی کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
پاکستان یہ بھی نہیں چاہتا کہ بھارت کابل حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بناتے ہوئے پاکستان کو سفارتی طور پر گھیرے میں لے لے، جو کہ اسلام آباد میں پاکستانی سیاستدانوں کے لیے ایک بھیانک خواب کی مانند ہے۔ اپنے ان مفادات کے حصول کے لیے پاکستان طالبان کو استعمال کر رہا ہے۔
اس انتہائی نازُک اور ہنگامہ خیز صورتحال میں پاکستان کے لیے افغانستان کانفرنس ایک ایسا موقع ہے، جہاں وہ بین الاقوامی سفارتی میز پر زیادہ بڑا داؤ کھیل سکتا ہے۔ اپنے بائیکاٹ کے ذریعے پاکستان مغربی دُنیا کو باور کرا دینا چاہتا ہے کہ پاکستان کے بغیر یا پاکستان کی مخالفت کرتے ہوئے افغانستان میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔ مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا یا نہ لانا پاکستانی سیکرٹ سروس ہی کے ہاتھ میں ہے۔
اب گیند امریکہ اور یورپی سفارت کاری کی کورٹ میں ہے۔ پاکستان کو اِس بات پر قائل کیا جانا چاہیے کہ اُس کے جائز مفادات کا خیال رکھا جائے گا لیکن اِس سے زیادہ کا بھی وعدہ نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایٹمی طاقت کا حامل پاکستان سخت سودے بازی کرے گا لیکن اِس نازُک تعلق کو مکمل طور پر ٹوٹنے بھی نہیں دے گا۔ اِس ملک کو مختصر نہیں بلکہ طویل مدت کے لیے امریکہ کی مالی اور فوجی امداد اور تعمیر نو کے لیے یورپی یونین کے فراہم کردہ وسائل کی ضرورت ہو گی۔‘‘
تبصرہ: گراہم لُوکاس / ترجمہ: امجد علی
ادارت: حماد کیانی