پاکستان کی سکڑتی ہوئی برآمدات
9 مئی 2016پاکستان میں برآمدات کا شعبہ اس سال بھی کوئی اچھی کاردگی نہیں دکھا پائے گا۔ عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برآمدات کے گرنے کے اسباب میں ایک سبب ’اسٹرکچل‘ خامیا ں ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں کمی غیر مسابقانہ پالیسی، نہ مناسب انفرا اسٹرکچر اور ہائی ٹرانزیکشن کوسٹ کی وجہ سے ہے۔
لیکن سیالکوٹ چیمبر آف کامرس کے ڈپٹی سیکریڑی جمشید مرتضیٰ کا کہنا ہے کہ برآمدات حکومت کی ترجیحات میں کہیں نظر نہیں آتیں۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’مقامی مارکیٹ کو بچانے کی پالیسی کہاں ہے؟ ہم یہاں چمڑے، سرجیکل اشیاء، اسپورٹس اشیاء اور کچھ اور چیزوں کی برآمدات سے وابستہ ہیں۔ حکومت نے ہمیں بین الاقوامی مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑا ہوا ہے۔ میں نہیں سمجھتا ہے کہ حکومت کی پروٹیکشنسٹ پالیسی ہمارے شعبوں کے لیے ہے۔‘‘
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ان شعبوں میں 2006 سے 2014تک چین نے راج کیا۔ اب وہاں اجرت کے بڑھ جانے کی وجہ سے ہمیں بھی بزنس میسر ہوگیا ہے، لیکن اگر ہم 2006 میں ہی کوئی اچھی پالیسی بنا لیتے تو ہمیں مارکیٹ کا اچھا حصہ مل جاتا۔ پوری دنیا میں برآمدات کرنے والی صنعتوں کی سر پرستی کی جاتی ہے، ہمارے ہاں اسے کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے توانائی کا ایک بحران رہا ہے، جس کی وجہ سے بھی معیشت پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔ کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر یونس ایم بشیر نے DW کو بتایا، ’’یہ بات صحیح ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں ہر سال کمی ہو رہی ہے۔ پیداواری لاگت میں اضافہ، امن و امان اور دوسرے ممالک کے سستے دام اس کے چند اسباب ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کی سیل ریفنڈ پالیسی نے بھی اس کو متاثر کیا ہے۔ صنعت کاروں کا 250 بلین روپیہ ابھی بھی سیل ریفنڈ کے سلسلے میں رکا ہوا ہے۔ ہمارے دام زیادہ ہیں اور امن وا مان کی وجہ سے ہم پیداوار کو وقت پر نہیں پہنچا پا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش، بھارت اور ویت نام میں بجلی اور گیس سستی ہیں جب کہ ہمارے یہاں ان کی قیمت زیادہ ہے۔ اس لیے ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کر پاتے۔‘‘
معروف معیشت دان قیصر بنگالی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستان کی معیشت غیر مسابقانہ ہے۔ ’’ہمارے سرمایہ کاری کے قوانین کو پڑھ لیجیے، وہ بہت لبرل ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب لوگوں کا رجحان ٹریڈنگ معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ کافی عرصہ سے زوال پذیر ہے کیوں کہ کچھ بنانے کے لیے آپ کو بہت سی چیزوں کا اہتمام کرنا پڑتا ہے جب کہ ٹریڈنگ ایک کمرے سے بھی ہو جاتی ہے۔ میں ذاتی طور پر دو ایسی بڑی فیکڑیوں کا جانتا ہوں جنہوں نے مینوفیکچرنگ بند کر کے اپنی فیکڑیوں کو صرف مال پیک کرنے تک محدود کر دیا ہے۔ اب وہ چین میں مال تیار کراتے ہیں اور ان کی پیکنگ یہاں کرتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’اسٹاک مارکیٹ، کموڈٹی مارکیٹ اور لینڈ مارکیٹ کے ابھار نے بھی مینوفیکچرنگ کو متاثر کیا ہے۔ حیدر آباد اور کراچی میں دو بڑی سیمنٹ فیکڑیاں بند کر کے وہاں رہائشی کالونیاں بنا دی گئی ہیں۔ کراچی میں اب صنعتی زمین پر دفاتر بنائے جار ہے ہیں۔ اگر آپ کچھ پیدا ہی نہیں کریں گے تو برآمدات کیسے کریں گے؟ اِسی لیے برآمدات پر زوال ہے۔‘‘
انہوں نے اس بات پر افسوس کااظہار کیا کہ ملک میں کوئی بینک ایسا نہیں ہے جو صنعتی شعبے کی مدد کرے۔ ’’بینک اب طویل المدتی قرضے نہیں دے رہے۔شوکت عزیز کے دور میں کنزیومر فنانسنگ کی وجہ سے کچھ عرصے کے لیے مینوفیکچرنگ سیکڑ میں تھوڑی بہتری آئی تھی لیکن وہ کوئی دیر پا حل نہیں تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے پالیسی بنائے، ٹیکس کم کرے اور توانائی کے بحران پر قابو پائے۔‘‘
ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ کریم چھاپڑا کا کہنا ہے کہ ڈالر کے ریٹ کم ہونے کی وجہ سے بھی صنعت کو نقصان ہوا ہے۔ ’’ٹیرف میں کمی ہونی چاہیے اور گیس و بجلی کے ریٹس بھی کم ہونے چاہییں۔ ‘‘