1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کووڈ انیس سے پاکستان میں تعلیمی نظام کس طرح متاثر ہوا ہے؟

26 ستمبر 2021

پاکستان کے اسکول کورونا وائرس کی وبا سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ طلباء کو طویل عرصے تک تعلیمی مراکز کی بندش کا سامنا رہا۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اس کے نقصانات آنے والے برسوں میں بھی جاری رہیں گے۔

https://p.dw.com/p/40oBq
پاکستانی طالب علم
تصویر: Muhammad Sajjad/AP Photo/picture alliance

پاکستان کے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے چند اضلاع میں گزشتہ ہفتے نجی اور سرکاری اسکول  کھولے گئے، جبکہ صوبہ سندھ میں اگست کے مہینے سے ہی تعلیمی اداروں میں کلاسز کا آغاز  کردیا گیا تھا۔

کووڈ انیس کی عالمی وبا کے دوران پاکستان میں تعلیمی ادارے تقریباﹰ سات ماہ تک بند رہے۔ پاکستانی حکام کی جانب سے ستمبر 2020ء میں اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن کورونا کیسز کی بڑھتی تعداد کے نتیجے میں نومبر میں انہیں دوبارہ بند کرنا پڑگیا۔

حکومت نے رواں سال جنوری میں ایک مرتبہ پھر تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان  کیا۔ تاہم ، اس بار بھی اپریل 2021ء میں کورونا وائرس کی  تیسری لہر شروع ہوگئی اور اسکول دوبارہ بند کردیے گئے۔

پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے پچھلے ہفتے ایک ٹوئیٹ میں لکھا، ''سن 2021 - 22  کے تعلیمی سال میں آئندہ سال جون تک توسیع کردی گئی ہے اور سالانہ امتحانات جون 2022ء میں منعقد کیے جائیں گے۔‘‘

علاوہ ازیں پاکستانی حکام نے 'ڈیجیٹل لرننگ‘   کے منصوبے بھی متعارف کرائے تھے۔ حال ہی میں، وزیر تعلیم نے بعض طالب علموں کو 33 فیصد رعایتی نمبر دے کر پاس کردیا تھا۔ تاہم خدشہ ہے کہ اس اقدام کے فوائد کم نقصانات زیادہ ہوں گے۔

لاکھوں بچے تعلیم سے محروم

پاکستان بھر میں سرکاری اور نجی اسکولوں کے  تعلیمی معیار میں تفریق  اور شرح خواندگی میں نمایاں کمی کے بعد وبائی صورتحال نے کم از کم 40 ملین  طالب علموں کو متاثر کیا ہے۔

پاکستان میں یکساں تعلیمی نصاب اور مذہبی مواد

اقوام متحدہ کے بہبودِ اطفال کے ادارے یونیسیف کے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ بچوں کی گھروں میں پڑھنے اور سیکھنے کی صلاحیت وبائی صورتحال سے قبل کلاس رومز کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے۔  اس دوران بچوں کو ٹیکنالوجی تک ناقص رسائی، انٹرنیٹ کے کنکشن کے مسائل اور عدم دلچسپی کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا ہے۔

پاکستان کی ایک خاتون خانہ اور تین بچوں کی والدہ عالیہ ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بچوں میں آن لائن کلاسز کے لیے دلچسپی اور جوش برقرار رکھنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا، کیونکہ انہیں یہ پسند نہیں اور ان کو اسکرین کے سامنے مزید وقت گزارنا پڑتا تھا۔‘‘ مِسز ملک کے مطابق گھر میں بچوں کی آن لائن کلاسز کے لیے الگ الگ انتظام کرنا، اور تمام بچوں کے لیے علیحدہ علیحدہ ڈیوائس کا بندوبست کرنا ایک اور بڑا چیلنج تھا۔

اس بارے میں سیکنڈری اسکول ٹیچر محمد قدیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کی ذہنی اور جمسانی نشونما کے عمل کے دوران تعلیم کے علاوہ دیگر سرگرمیوں اور ریگولر کوچنگ نہ ہونے کا ان پر سنگین اثر پڑے گا۔ قدیر کے بقول، ''یہ نسل ہمیشہ 'کووڈ جنریشن‘ کے نام سے جانی جائے گی۔‘‘

ہوم اسکولنگ، سب کے اختیار میں نہیں

یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل ڈیوائس کی عدم موجودگی کے سبب 23 فیصد  نوجوان طالب علموں  کے لیے ہوم اسکولنگ یا آن لائن لرننگ ممکن ہی نہیں تھی۔ اس دوران متوسط طبقے کے گھرانے سب سے زیادہ متاثر ہوئے کیونکہ وہ مہنگی ڈیوائسز کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ 'ریموٹ لرننگ‘ جسمانی طور پر معذور بچوں اور لڑکیوں کے لیے بھی ایک چیلنج تھا۔

کورونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں نافذ لاک ڈاؤن  نے بھی ملکی معیشت کو بری طرح متاثر کیا۔ اس دوران کئی طلبہ کو مالی تنگی کی وجہ سے اپنی  تعلیم چھوڑنا یا وقتی طور پر روکنا پڑ گئی۔

ایک طالب علم جو دوسروں کو بھی روزگار مہیا کر رہا ہے

سن 2020 میں ورلڈ بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ نو لاکھ تیس ہزار بچے پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں سے تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیں گے۔ عالمی بینک کے مطابق، ''پاکستان عالمی سطح پر ایسا ملک ہے جہاں COVID بحران کی وجہ سے سب سے زیادہ [تعداد میں] بچوں کو تعلیم چھوڑتے دیکھ رہے ہیں۔‘‘

ایک سکے کے دو رُخ

پاکستان میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک یاسمین حمید کہتی ہیں کہ یہ ایک مشکل مرحلہ ضرور تھا لیکن اس صورتحال میں بھی لوگوں نے فعال رہنا اور دوری کے باوجود ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنا سیکھا ہے۔ ان کے بقول، ''سیکھنے کے نئے طریقے آہستہ آہستہ اپنائے گئے اور بچے بھی ان سے ہم آہنگ ہونا شروع ہوگئے۔‘‘

پاکستانی صوبہ پنجاب میں ٹیلی اسکول جیسے منصوبے بھی متعرف کرائے گئے لیکن ان کے بھی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آسکے۔ ماہرین کے مطابق حکومت پاکستان کورونا ویکسینیشن مہم میں تیزی برتنے کے لیے کوشاں ہے اور جب تک عوام کی اکثریت کو ویکسین فراہم نہیں کی جاتی، تب تک تعلیمی اداروں کی صورتحال میں واضح بہتری آنا مشکل ہوگا۔

انوشے عابد (ع آ /  ا ب ا)

پاکستان کی اولین ٹرانس جینڈر جج بننا چاہتی ہوں، نیشا راؤ