پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں عورتوں کے خلاف تشدد میں اضافہ
30 جولائی 2011دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ سے جہاں مرد متاثر ہورہے ہیں وہاں خواتیں بھی اس کے اثرات سے محفوظ نہیں ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں سن2011 کے پہلے چھ ماہ میں خواتین کے خلاف تشدد میں 12فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سال رواں کے پہلے چھ ماہ کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے 389 کیسز رجسٹر ہوئے، جن میں سے دیہی علاقوں میں 246 اور شہری علاقوں میں 143 قتل ، اغوا، عصمت دری اور تشدد کے کیسز شامل ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن معاشرے کی مخصوص روایات کی وجہ سے زیادہ تر لوگ بدنامی سے بچنے کی خاطر قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے جرگوں اور مصالحت سے کام لیکر معاملات کو دبا دیتے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاونڈیشن کی ریجنل کوآرڈی نیٹر شیریں جاوید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’ماحول اور نفسیاتی مسائل سمیت دہشت گردی، بے روزگاری، غربت اور مہنگائی میں اضافہ اس کی بنیادی وجوہات ہیں، جبکہ ہمارے صوبے کے مخصوص حالات کی وجہ سے نقل مکانی کرنیوالی خواتین متعدد مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔ انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے۔ ایسے میں وہ ہراساں بھی ہوتی ہیں اور اجتماعی زیادتی کا شکار بھی۔ اکثر بچیاں اغوا ہو کر جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں لیکن یہ کیسز رپورٹ نہیں ہوتے۔‘‘
شیریں جاوید کا کہنا تھا کہ مرد بھی اپنی فرسٹریشن خواتین پر نکالتے ہیں۔ جب وہ بے روزگار ہوتے ہیں اور ان کے دس دس بچے ہوتے ہیں تو ان کی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے مرد احساس محرومی خواتین پر تشدد کرکے نکالتے ہیں۔ ملکی حالات کی وجہ سے لوگوں میں قوت برداشت ختم ہوچکی ہے اور وہ چھوٹی چھوٹی بات پر غصے میں آکر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ شیریں جاوید کے مطابق: ’’معاشرے سے تشدد کے خاتمے کے لیے پہلے مردوں کے لیے ایک آگاہی مہم چلانا ہوگی، کیونکہ ہمارے معاشرے پر مردوں کا غلبہ ہے، یہی قانون بناتے ہیں اور یہی فیصلہ کرتے ہیں کہ کس نے کیا کرنا ہے۔ اس کے بعد خواتین کی آگاہی اور اصلاح کیلئے کام کرنا ہوگا۔‘‘
صوبہ خیبر پختونخوا اور ملحقہ قبائلی علاقوں میں خواتین کی آبادی51 فیصد سے زائد ہے تاہم جہاں ان علاقوں میں خاندانی رنجشوں کے خاتمے کیلئے خواتین کو ”سورہ“ کے طور پر دیا جاتا ہے وہاں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل بھی کیا جاتا ہے اور اس قتل کو معاشرے میں زیادہ بری نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے ایک طرح سے غیرت و ناموس اور پختون روایات کے مطابق سمجھا جاتا ہے۔ خواتین پر تشدد کے واقعات پہلے بھی ہوا کرتے تھے لیکن معاشرے میں پرتشدد کارروائیوں میں اضافے نے اسے بھی بڑھاوا دیا ہے۔ پاکستانیوں کے مقابلے میں یہاں مقیم افغان مہاجرین میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات کی شرح زیادہ ہے۔ تاہم ان میں سے زیادہ تر یا تو رپورٹ نہیں ہوتے یا پھر مقامی آبادی کے کھاتے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔
اسی طرح خیبر پختونخوا میں پولیس بھی ایک حد تک مجرموں کا ساتھ دیتی ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو راستہ بتاتے ہوئے ان کے جرم کو ایک عام قتل کے طور پر رجسٹر کیا جاتا ہے۔ عام قتل غیرت کے نام پر قتل کے مقابلے میں قابل ضمانت جرم ہے۔
رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور
ادارت: افسر اعوان