پاکستانی بجٹ: عوام کو بہتری کی کوئی توقع نہیں؟
5 جون 2024یہ بجٹ ایک ایسے موقع پر پیش کیا جا رہا ہے جب ملک کے طاقتور اداروں اور عدلیہ میں تناؤ کی سی کیفیت دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ملک کے نئے انتخابات کے بعد بھی داخلی استحکام نظر نہیں آ رہا ہے۔ پاکستان کی وفاقی حکومت اگلے مالی سال کے لیے جون کے دوسرے ہفتے میں اپنا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے ۔ ملک کے تین صوبے سندھ بلوچستان اور پنجاب میں اس کے بعد صوبائی بجٹ پیش ہوں گے۔ پاکستان میں عام آدمی اس خوف کا شکار ہے کہ اس بجٹ کے بعد اس کو مہنگائی کی نئی لہر کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
عام لوگوں کی توقعات کیا ہیں؟
معاشی امور کے ماہر خالد محمود رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بجٹ کے نام پر عوام کو ریلیف دینے کے بلند بانگ دعوے ہمیشہ سے لوگ سنتے آئے ہیں ۔ حکومت مراعات یافتہ طبقوں کی مراعات کم کرنے کی بجائے قوم کو مشکل فیصلوں کے لیے تیار رہنے کا کہہ رہی ہے۔ ان کے بقول بجٹ اب ایک رسمی کارروائی ہے جس میں الفاظ کے گورکھ دھندوں اور میڈیا کمپین کے ذریعے خالی خزانے سے عوام کے مقدر بدل دینے کے دعوے سنائی دیں گے۔ اس ماحول میں عام آدمی حکومت سے کیا توقع رکھے۔ '' ابھی حکومت کہہ رہی ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے اگلے چند مہینوں میں روپے کی قیمت کم ہوگئی تو سارا کچھ برابر ہو جائے گا۔‘‘
لاہور کے علاقے شاہ دی کھوئی میں رہنے والی نجمہ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ وہ اور ان کی بہن لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں جبکہ اس کا بہنوئی ڈرائیونگ کی ملازمت کرتا ہے۔ اس کے باوجود خرچے پورے نہیں ہو پاتے۔ انہوں نے کہا، ''بچوں کو ہم نے اسکول سے ہٹا لیا ہے، بل زیادہ آئے تھے اس لیے اس بار اپنے موبائل بیچ کر مکان کا کرایہ ادا کیا ہے۔ میں اور میری والدہ دونوں بیمار ہیں۔ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو تو ان کی دوا لے آتی ہوں میری طبیعت زیادہ بگڑ جائے تو والدہ کی بجائے میری دوا آ جاتی ہے۔ ہمیں بجٹ سے کیا لینا دینا، میری والدہ بھی گھروں میں کام کرتی تھیں۔ اب میں یہ کام کرتی ہوں، کل کو ہمارے بچوں نے بھی یہی محنت مزدوری کرنی ہے ۔ ہمیں تو کوئی توقع نہیں۔ ‘‘
ایک مقامی یونیورسٹی کی استاد ڈاکٹر شبانہ اصغر نے بتایا کہ وہ اور ان کے شوہر دونوں اعلٰی عہدوں پر ملازمت کر رہے ہیں لیکن ان کے لیے بھی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اپنے گھر کے لیے لمبی منصوبہ بندی (گھر بنانا، بچوں کو اعلٰی تعلیم دلوانا یا بڑھاپے کے لیے کچھ بچانے) کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ روزمرہ کے اخراجات پورے کرنا ہی ہمارے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ اب حکومت تو مہنگائی میں کمی کی بات کر رہی ہے لیکن لوگوں کی قوت خرید بہت کم ہو چکی ہے۔ لوگ کمیٹیاں ڈال کر بچوں کی فیس پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت محض اعلانات کے ذریعے مہنگائی کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
کیا شہباز شریف عوامی ریلیف کے بڑے اقدامات کا اعلان کر سکتے ہیں؟
تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک تو شہباز شریف اور ان کے اتحادی جس طرح اقتدار میں پہنچے ہیں اس سے یہ نہیں لگتا کہ ان پر اپنے ووٹروں کو جواب دینے کا کوئی دباؤ ہے، دوسرے اس مرتبہ شٹر پاور رکھنے کی دعویدار بزنس کمیونٹی کی پسندیدہ شریف فیملی کے کسی بھی شخص (بشمولاسحاق ڈار) کو وزارت خزانہ کے قریب بھٹکنے بھی نہیں دیا گیا اور بے بسی کا تو یہ عالم ہے کہ چند دن پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے پٹرول کی قیمتوں میں پندرہ روپے فی لٹر کمی کا فیصلہ کرکے سارے چینلز پر خبریں چلوا دیں لیکن رات گئے انہیں پتہ چلا کہ وہ یہ فیصلہ نہیں کر سکتے اور پٹرول کی قیمت میں محض چار روپے کے لگ بھگ ہی کمی کی گئی۔ ''اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے اگلے پروگرام میں جانے کے لیے حکومت کو آئی ایم ایف کی جن کٹھن شرائط کا سامنا ہے اس کی موجودگی میں حکومت کے پاس زیادہ معاشی گنجائش بھی نہیں ہے۔ ‘‘
حکومت بجٹ میں کیا اقدامات کرے؟
ڈی ڈبلیو کی طرف سے لاہور کے مختلف علاقوں سے کیے گئے ایک سروے کے دوران مختلف لوگوں کا کہنا تھا کہ حکومت اپنے غیر ترقیاتی اخراجات کم کرے، سرکاری مشینری کا غیر ضروری بوجھ کم کرے، گولے بارود کی بجائے صحت اور تعلیم پر زیادہ رقوم خرچ کرے۔ اور وسائل کا زیادہ موثر اور منصفانہ استعمال یقینی بنائے۔
ایک طالب علم صداقت حسین کا کہنا تھا کہ ریاست کو شہریوں کو ریلیف پہنچانے کے لیے کچھ موثر اقدامات کرنے چاہیں۔ حکومت چند لوگوں کو سب سڈی دے کر پورے ملک یا صوبے کو ریلیف دینے کا تاثر دیتی ہے۔ ان کے بقول یہ بجٹ بھی حتمی نہیں ہے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے بعد بھی کتنے منی بجٹ آئیں گے۔ حکومت کو سچ بولنا چاہیے اور اپنے اعدادوشمار کی ساکھ بہتر بنانی چاہیے۔ ان کے بقول حکومت کو ضروری اشیائے زندگی کی قیمتوں کو فریز کر دینا چاہیے۔
لاہور کی مال روڈ پر موجود ایک شخص زاہد جمیل نے بتایا کہ دکھ یہ ہی نہیں کہ حکومت بہت زیادہ ٹیکس لیتی ہے اور اس کے جواب میں شہریوں کو سہولتیں بہت کم دیتی ہے اصل دکھ یہ ہے کہ شہریوں کو اپنے کاموں کے لیے ہسپتالوں، تھانوں ، کچہریوں اور دیگر سرکاری اداروں میں جو رشوت ٹیکس دینا پڑتا ہے اسے بھی تو ختم کیا جانا چاہیے۔
حکومت کے چیلنجز کیا ہیں؟
تجزیہ کار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے ڈی ڈبلیو کو بتایا حکومت کا اصل مسئلہ آمدن اور اخراجات میں در آنے والا بہت بڑا فرق ہے۔ ملکی معیشت جمود کا شکار ہے، حکومت نئے لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔ وسائل کی کمی اور آئی ایم ایف کے دباؤ کی وجہ سے حکومت لوگوں کو روایتی ''سب سڈی‘‘ نہیں دے سکتی۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے۔ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد وفاق زبوں حالی کا شکار ہے اور این ایف سی پر نظر ثانی آسان نہیں ہے۔ ایسے میں حکومت کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ بڑے بڑے عوامی بہبود کے کام کر سکے۔
اس سال کے بجٹ پچھلے سالوں سے کس قدر مختلف ہوں گے؟
تجزیہ کار جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ اس سال ملک میں قدرے جمہوری حکومتیں قائم ہیں جو بجٹ پیش کریں گی۔ ارکان اسمبلی کی طرف سے حکومت پر ان کے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کاموں کے لیے بھی دباؤ ہوگا۔ اگر ترقیاتی سرگرمیاں شروع ہوتی ہیں تو اس کا اثر عام لوگوں تک بھی پہنچنے کا امکان ہے۔ معاشی ماہر خالد رسول کا کہنا ہے اس برس صرف یہ فرق ہے کہ ماضی کی نسبت مختلف وزرائے خزانہ بجٹ تقریر کریں گے باقی صورت حال میں کوئی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔
کیا اچھے دن آسکتے ہیں؟
ممتاز ماہر معیشت اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید اصغر زیدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ درست ہے کہ پاکستان کو مشکل اقتصادی صورتحال کا سامنا ہے لیکن ان سارے حالات کے باوجود کچھ شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم منصوبہ بندی کرکے اس بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔ ''ہمارے پاس سب سے قیمتی اثاثہ نوجوان نسل ہے جن کو صرف تھوڑے سے عرصے میں فنی مہارتیں ( آرٹیفیشیل انٹیلیجنس، آئی سی ٹی، سافٹ ویئر ڈیویلپمنٹ ، ڈیٹا سائنسز اور فنی تعلیم وغیرہ) سکھا کر ہم انہیں پاؤں پر کھڑا کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی معاشی ترجیحات کو ایسے بنانا ہوگا کہ ملک کے سارے حصوں میں موجود غریب لوگوں تک افورڈ ایبل قیمت پر صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور چھوٹے گھروں کی سہولتیں پہنچیں۔ ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔