1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستانی فوجیں افغانستان میں داخل ہو گئیں‘

15 اپریل 2018

افغانستان نےالزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی افواج نے مشرقی افغانستان میں داخل ہو کر افغان فورسز پر حملہ کیا، جس کے بعد دونوں ممالک کی افواج کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ پاکستان کے مطابق پہل افغان فورسز کی طرف سے کی گئی۔

https://p.dw.com/p/2w4RU
Afghanistan Grenzpolizei Grenze zu Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Habibi

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے افغان صوبے خوست کے اعلیٰ پولیس اہلکار کرنل عبدالہنان کے حوالے سے بتایا ہے کہ اتوار کی علی الصبح پاکستانی فورسز نے سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغان فورسز پر حملہ کیا ہے۔ تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ ان جھڑپوں کا آغاز افغان فوج نے کیا۔ 

پاک افغان سرحدی دیہات میں دیوار برلن جیسی تقسیم کی تیاریاں

افغانستان ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب مشترکه آپریشن پر راضی

ڈیورنڈ لائن کا معاملہ طے شدہ ہے: پاکستان

پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب میں تیزی

ہنان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی فورسز خوست میں داخل ہوئیں اور انہوں نے افغان فوج کے خلاف کارروائی کی، جس کے نتیجے میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جھڑپیں جاری ہیں۔ افغان حکام کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس تشدد کی وجہ سے دو افغان فوجی ہلاک جبکہ تین زخمی ہو گئے۔

پاکستانی فوج کی طرف سے جاری کیے ایک بیان کے مطابق افغان سرحد سے متصل پاکستانی علاقے میں فوجی معمول کے گشت پر تھے کہ افغان فورسز کی طرف سے فائرنگ شروع کر دی گئی، جس کی وجہ سے دو فوجی ہلاک جبکہ پانچ زخمی ہو گئے۔ بیان کے مطابق افغان فورسز کے حملے کے بعد پاکستانی فورسز نے جوابی کارروائی کی۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین دو ہزار کلو میٹر سے زائد طویل سرحد دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین تناؤ کا سبب ہے۔ ڈیورںڈ لائن نامی اس سرحد کو انیسویں صدی میں برطانوی راج کے دور میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تاہم کابل حکومت اسے بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم نہیں کرتی ہے۔

افغان حکومت ڈیورنڈ لائن پر پاکستانی فوج کی طرف سے قائم کردہ نئی عسکری چوکیوں پر بھی تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ اپنے اپنے سرحدی علاقوں میں فعال شدت پسندوں کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کرتے ہیں۔

کابل اور امریکا کا کہنا ہے کہ افغانستان سے متصل بالخصوص پاکستانی قبائلی علاقہ جات میں جنگجو محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں جبکہ پاکستانی فوج کے کچھ عناصر ان جنگجوؤں کو معاونت فراہم کرتے ہیں۔ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہی جنگجو افغانستان میں سرحد پار کارروائی کرتے ہوئے افغان حکومت اور غیر ملکی اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔

تاہم پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام آباد حکومت کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو دراصل افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں، جو وقتا فوقتا پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردانہ کارروائیاں سر انجام دیتے رہتے ہیں۔

حال ہی میں پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے افغانستان کا دورہ کیا تھا، جس دوران انہوں نے افغان صدر اشرف غنی کے ساتھ ملاقات میں علاقائی سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے تعاون بڑھانے پر زور بھی دیا تھا۔

ع ب /  ع ت / اے پی