پاکستانی مسلم خواتین کے لیے طلاق فوری یا صرف مرحلہ وار
30 ستمبر 2018اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کہ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح میں کمی کے لیے طلاق نامے کی موجودہ قانونی دستاویز میں اصلاح کی جائے۔ مجوزہ اصلاح کا مقصد کسی بھی طلاق کو فوری طور پر عمل میں آنے سے روکنے کے لیے اسے ایک ایسی عاقلانہ شکل دینا ہے، جس کی بنیاد پر اس عمل کو بہتر بناتے ہوئے اس کے مختلف مراحل میں قانونی طور پر وقفے بھی دیے جا سکیں۔
اس امر کا اعلان ابھی حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کیا تھا۔ ان کے مطابق جلد ہی اس کونسل کا ایک ایسا اجلاس بلایا جائے گا، جس میں مختلف ممالک کو علماء کو بھی مدعو کیا جائے گا تاکہ بہتر بنائے گئے طلاق نامے کو ایک ایسی دستاویز کی شکل دی جا سکے، جو ہر کسی کے لیے قابل قبول ہو۔
عائلی مقدمات کا بہت بڑا حصہ طلاق اور خلع کے تنازعات
اس معاملے میں کونسل کی طرف سے پیش قدمی کا سبب یہ ہے کہ پاکستان میں طلاق اور خلع کے معاملات ہی مسلسل بڑھتے ہوئے عائلی مقدمات کا بڑا حصہ ہوتے ہیں۔ پاکستانی حکومت کے پاس طلاق سے متعلق اپنی کوئی قومی ڈیٹا بیس نہیں جبکہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017ء میں صرف لاہور کی مختلف عدالتوں میں طلاق اور خلع سے متعلق فیملی مقدمات کی تعداد بیس ہزار سے زائد رہی تھی۔ اسی طرح اسلام آباد میں 2017ء میں اس نوعیت کے مقدمات کی تعداد بھی چار ہزار سے زائد تھی۔
پاکستان میں انسانی اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کے مطابق فوری طور پر تین بار زبانی طلاق دے دینے کا عمل ایک امتیازی طریقہ کار ہے۔ اس عمل کے مردوں کے ہاتھوں استعمال سے نہ صرف ازدواجی رشتے میں ان پر عائد ہونے والے حقوق اور ذمے داریوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ خواتین کی زندگیوں پر بہت بڑا اختیار بھی مردوں کے ہاتھوں میں ہی رہتا ہے۔ معاشرتی طور پر تین طلاقیں بیک وقت دی جاتی ہیں اور یہ زبانی ہوتی ہیں لیکن ان کے بارے میں نہ کوئی سوال کیا جاتا ہے اور نہ ہی مرد بالعموم اپنے آپ کو معاشرتی طور پر اس طرح طلاق دینے کی وجوہات کی وضاحت کا پابند سمجھتے ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے اس بات کا نوٹس لینے اور یہ تجویز دینے کہ طلاق کے اس عمل کو تبدیل کیا جائے، اس پر کئی حلقوں کی طرف سے اگر مثبت ردعمل سامنے آیا ہے تو کئی دیگر حلقے اس تجویز پر تشویش کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اس متضاد ردعمل کی وجہ یہ ہے کہ شادی اور طلاق کے عمل کو محض مذہبی طور پر دیکھنے کے بجائے بہت سے سماجی طبقات اس امر کے حامی ہیں کہ اس حوالے سے معاشرتی اصلاحات براہ راست ایک سول قانونی معاملہ ہیں، جو حکومتی عمل داری میں آتا ہے۔
متاثرین بنیادی طور پر صرف عورتیں
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سرکردہ کارکن زنیرہ احمد نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے کہا، ’’چونکہ طلاق کی متاثرین بنیادی طور پر عورتیں ہی ہوتی ہیں، جن کی ذہنی، جذباتی اور معاشرتی زندگی اکثر تباہ ہو جاتی ہے، اس لیے یہ بنیادی طور پر عورتوں کے حقوق کی بات ہے۔ ایسے کسی بھی اصلاحی عمل کا آغاز اور اختتام پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے، جہاں ملکی خواتین کے حقوق کا تحفظ بہتر طور پر کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے کو صرف مردوں یا مذہبی حلقوں تک محدود بالکل نہ رکھا جائے۔‘‘
پارلیمان کا کردار
راولپنڈی کے ایک نجی اسکول میں گزشتہ پانچ سال سے بطور ٹیچر کام کرنے والی ثنا اختر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے سابق شوہر نے ایک معمولی سے جھگڑے پر انہیں طلاق دے دی تھی اور گھر سے نکال دیا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’تب سے مجھے مردوں اور شادی کے نام سے ہی نفرت ہو گئی ہے۔ عورتوں کے حقوق پر جہاں پر چوٹ لگتی ہو، اسے قابل گرفت اور قابل سزا ہونا چاہیے۔‘‘
ثنا اختر نے بتایا، ’’پاکستان کے پدرشاہی اور مذہبی لحاظ سے قدامت پسند معاشرے میں کسی بھی ازدواجی رشتے کے استحکام میں عورت کے کردار کو ویسے بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ حقوق سے انکار کا یہ راستہ وراثت میں حصے اور بچوں کی تحویل تک جاتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام صرف کسی بھی نئے قانون کے آ جانے اور اس کے اسلامی ہونے تک محدود ہے۔ شادی اور طلاق کے قوانین اور ان سے متعلق نکاح ناموں میں کسی بھی ضروری اصلاح، ترمیم یا بہتری کی ذمے داری صرف اور صرف منتخب قانون ساز اداروں کے پاس ہونا چاہیے۔‘‘
قومی کمیشن برائے حقوق نسواں
ایک پرائیویٹ فرم میں بطور کوآرڈینیٹر کام کرنے والی خاتون حنا شیخ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’شادی اور طلاق کے قوانین میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش رہتی ہے۔ مگر اس نئی تجویز پر عمل درآمد کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایسا قومی کمیشن برائے حقوق نسواں کی سربراہی میں کیا جائے اور اس کمیشن کو وزارت برائے انسانی حقوق اور خواتین کا بھی مکمل تعاون حاصل ہو۔‘‘
حنا شیخ کے مطابق، ’’اصلاح کا بنیادی مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہونا چاہیے کہ کسی بھی شادی کو عورتوں کے خلاف اور صرف مردوں کی مرضی سے فوری، یکطرفہ اور بلا روک ٹوک ختم کیے جانے سے روکا جائے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قومی کمیشن برائے حقوق نسواں موجودہ عائلی قوانین مثال کے طور پر فیملی لاز آرڈینینس 1961 اور 2011ء کے ایکٹ میں ترامیم تجویز کرے۔‘‘
شادی ایک قانونی معاہدہ بھی
کئی تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ بطور مذہب اسلام میں بھی شادی دو افراد کے درمیان ایک قانونی معاہدہ ہے، اس لیے عورتوں کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ نکاح نامے پر دستخطوں سے قبل اس میں درج شرائط اور ضوابط کو سمجھیں۔ یوں طلاق کے بارے میں بھی مختلف اختیارات نکاح نامے کا حصہ ہونا چاہییں۔
ان حلقوں کا مطالبہ ہے کہ فوری طور پر تین طلاقوں کے عمل کے خاتمے کے لیے ملکی پارلیمان نہ صرف ایک قانونی طریقہ کار پر متفق ہو بلکہ خواتین کے لیے ان کی اپنے حقوق سے آگہی کی خاطر ایک ملک گیر تشہیری مہم بھی شروع کی جائے تاکہ پاکستانی خواتین بھی خود اپنے حقوق کا تحفظ کر سکیں۔