1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پاکستانی ٹرانس جینڈر حج پر جا سکیں گے‘

عاطف بلوچ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن
23 فروری 2018

اس برس پاکستانی ٹرانس جینڈر یا مخنث اسکاؤٹس کا ایک گروپ بطور حج رضاکار پاکستانی حاجیوں کے ساتھ سعودی عرب جا سکے گا۔ اس اقلیت کی مرکزی معاشرتی دھارے میں شمولیت کے لیے اس پیشرفت کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2tDdH
Haddsch Islamische Pilgerfahrt nach Mekka | Kabaa, Große Moschee
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Hamra

خبر رساں ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے پاکستان بوائے اسکاؤٹس ایسوسی ایشن کے سربراہ عاطف امین حسینی کے حوالے سے بتایا ہے کہ پروگرام ہے کہ اس مرتبہ تقریبا چالیس ٹرانس جینڈر افراد کو معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ہی تقریبا چالیس ٹرانس جینڈر افراد کو بطور اسکاؤٹس اپنی ایسوسی ایشن کا رکن بنایا تھا۔

’خواجہ سراؤں کو بھی ووٹ کا حق دیا جائے‘

مردم شماری کا آغاز، سروے فارم میں ’ٹرانس جینڈر کا کالم غائب‘

پاکستان میں مردم شماری، ٹرانس جینڈر بھی شمار کیے جائیں گے

ٹرانس جینڈرز کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھُل گئے

کراچی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے حسینی نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’ہم سب کے لیے برابری کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے ٹرانس جینڈر افراد کو اپنی ایسوسی ایشن میں شامل کیا ہے۔‘‘

پاکستان میں عمومی طور پر ٹرانس جینڈر افراد کو اپنے ہی گھرانوں کی طرف سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ایسے افراد کو بھیک مانگنے یا جسم فروشی پر مجبور کیا جانا بھی عام سی بات تصور کی جاتی ہے۔ تاہم حالیہ عرصے کے دوران پاکستان میں اس حوالے سے شعور و آگاہی میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔

اب ٹرانس جینڈر افراد کو مسلمانوں کے مقدس ترین مقام پر روانہ کرنا، ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔  عاطف امین حسینی کے مطابق چالیس تا پچاس ٹرانس جینڈر افراد کے ایک گروپ کو بطور رضاکار سعودی عرب روانہ کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے، ’’ہمیں خوشی ہے کہ ہم انہیں حج پر روانہ کریں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس اہم موقع کے لیے تمام اسکاؤٹس کو میرٹ پر منتخب کیا جائے گا۔

پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کی اصل تعداد کے بارے میں مصدقہ سرکاری اعدادوشمار موجود نہیں ہیں تاہم امدادی ادارے ٹرانس ایکشن پاکستان کے اندازوں کے مطابق تقریبا ایک سو نوے ملین آبادی والے اس ملک میں کم ازکم نصف ملین افراد ٹرانس جینڈر ہیں۔

پشاور کے ایک مقامی ادارے بلیو وینز کے پروگرام کوآرڈینیٹر قاسم نسیم کے مطابق ٹرانس جینڈر افراد کو اسکاؤٹس کے طور پر بھرتی کرنا ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ اس طرح معاشرے میں اس اقلیت کی قبولیت میں مدد ملے گی۔

قاسم نسیم نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن سے گفتگو میں کہا، ’’پاکستان پہلے ہی ان (ٹرانس جینڈر افراد) کی شناخت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس لیے اس کمیونٹی کو معاشرے میں ضم کرنے کی خاطر مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘‘

پاکستان میں تیسری صنف سے تعلق رکھنے والے افراد کو پہلی مرتبہ مردم شماری میں شمار کیا گیا تھا جبکہ سن دو ہزار سترہ میں تھرڈ سیکس کی علامت X کے نشان کے ساتھ ان افراد کو پاسپورٹ جاری کرنے کا عمل شروع کر دیا گیا تھا۔

پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ماڈل کی دھوم