پاکستانی ہندو اقلیت: شادیوں کےاندراج کے قانون کا مطالبہ
12 اپریل 2011ہندو اقلیتی رہنماؤں کے مطابق پاکستان کے قیام کو چھ عشروں سے بھی زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ملک میں ہندوؤں کی شادیوں کے باقاعدہ اندراج کا ابھی تک کوئی قانون موجود نہیں۔
اس بارے میں پاکستانی ہندو برادری کے ایک رہنما بنسا لال کہتے ہیں، ''ہماری شادیاں، ہمارے پھیرے رجسٹرڈ ہونے چاہیئں تا کہ ہمارے پاس کوئی ثبوت ہو جو ہم ان شادیوں کے بارے میں کسی کو دکھا سکیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ شادیوں کا اندراج نہ ہونے کے سبب ہندو برادری کو کئی طرح کے قانونی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہے۔
ایسی شادیوں کا اندراج نہ ہونے کے سبب سب سے زیادہ مسائل کا سامنا خواتین کو کرنا پڑ رہا ہے۔ شادی کے بعد بھی ایسی کسی شادی کا کوئی دستاویزی ثبوت نہ ہونے کے سبب انہیں نہ صرف اپنے شوہر کے نام پر شناختی کارڈ بنوانے میں مشکلیں پیش آتی ہیں بلکہ خاوند کی موت کی صورت میں انہیں اپنے قانونی حقوق سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔
اس بارے میں صوبہ سندھ کی رہنے والی پاکستانی ہندو خاتون مینا کماری کا کہنا ہے، ’’کسی ہندو خاتون کا شوہر اگر اپنے پیچھے کوئی بیمہ پالیسی چھوڑ گیا ہو تو اس کے لیے بھی اسے ثبوت دینا پڑتا ہے کہ وہ انتقال کر جانے والے شخص کی بیوہ ہے۔ جب تک وہ ایسا کوئی ثبوت نہ دے، ظاہر ہے بیمہ کی رقم اسے نہیں ملی گی۔''
پاکستانی ہندو رہنماؤں کے مطابق پاکستان کے مرحوم وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ہندوؤں کی شادیوں کے اندراج سے متعلق ایک قانونی بل پارلیمان سے منظور کرائیں گے۔ تاہم شدت پسندوں کے ہاتھوں بھٹی کی ہلاکت کے بعد اب یہ امید بھی معدوم ہو گئی ہے۔
ایک اور ہندو خاتون شیلا راج کے مطابق انہیں اپنے ہر کام کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ’’ہم کہیں بھی جاتے ہیں، تو ہمیں شادی رجسٹر کروانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
پاکستان ہندو کونسل کے مطابق اس وقت پاکستان میں ہندوؤں کی مجموعی آبادی 70 لاکھ کے قریب ہے جو کہ پاکستان کی موجودہ مجموعی آبادی 17 کروڑ کا 5.5 فیصد بنتی ہے۔ مقامی ہندوؤں کے مطابق پاکستانی پارلیمان میں اقلیتوں کے نمائندوں کے انتخاب کا موجودہ طریقہ کار درست نہیں۔ سیاسی جماعتیں پارلیمان میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر اسی تناسب سے اقلیتی نمائندوں کو نشستیں مہیا کرتی ہیں۔
بنسا لال کے مطابق چونکہ یہ اقلیتی نمائندے ووٹ لے کر نہیں آتے اس لیے وہ اپنی کمیونٹی کے مسائل حل کرنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا،’’ اگر ہم کسی ایم این اے کے پاس جائیں گے تو وہ یہ کہے گا کہ آپ نے تو مسلم امیدوار کو ووٹ دیے تھے، اس کے پاس جائیں۔ آپ بتائیں کہ ایک غریب آدمی جو دور دراز کے کسی گاؤں میں رہتا ہے، وہ کب اور کیسے اسلام آباد پہنچے گا۔‘‘
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ہندو برادری سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ انہیں وہاں سے کوئی ایسا ریلیف ضرور مل سکتا ہے، جس سے وقتی طور پر ان کی مشکلات میں کمی آ سکے۔ تاہم ملک کے دیگر مسائل کی طرح ہندوؤں کی شادیوں کی رجسٹریشن کا مسئلہ بھی بالآخر پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے ہی حل ہو گا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں