’جوہری دہشت گردی بعید ازامکان نہیں‘
2 اپریل 2016جمعے کو واشنگٹن میں اختتام پذیر ہونے والی عالمی جوہری سمٹ کے موقع پر اوباما نے اپنے خدشات کا کُھل کر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں امید ہے کہ عالمی سطح پر ایسے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے، جن کی مدد سے جہادیوں کی جوہری ہتھیاروں یا ’’ڈرٹی بم‘‘ سازی کے لیے جوہری مواد تک رسائی کو ناممکن بنا دیا جائے گا۔
باراک اوباما کا واشنگٹن میں ہونے والی اس نیوکلیئر سمٹ میں یہ آخری خطاب تھا۔ امریکی صدر آئندہ جنوری میں اپنے عہدے سے دستبردار ہونے جا رہے ہیں اور اس اعتبار سے ممکنہ طور پر نیوکلیئر ہولوکسٹ کے خطرات کے سبب دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں اور مواد میں کمی کے موضوع پر ہونے والے اس عالمی اجلاس میں وہ آخری بار دنیا بھر کے لیڈران سے مخاطب تھے۔
واشنگٹن میں ہونے والے اس اجلاس میں 50 سے زائد ممالک شریک تھے۔ اجلاس میں شریک ممالک نے شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ اجلاس میں روس کی عدم شرکت پر بھی شرکاء کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔ امریکی صدرنے کہا کہ روس جوہری ہتھیاروں سے ہونے والی تباہی کی بنیاد پر اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط تر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
واضح رہے کہ واشنگٹن میں جوہری ہتھیاروں کے تحفظ کے موضوع پر ہونے والے اس اجلاس میں دو ممالک کے رہنماؤں نے شرکت نہیں کی۔ ایک روس کے صدر ولادیمیر پوٹن، جنہوں نے اس اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا دوسرے پاکستانی وزیر اعظم جنہوں نے لاہور کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اپنا امریکا کا دورہ منسوخ کرنے اور عالمی جوہری سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
صدر اوباما نے کہا کہ جوہری اثاثوں میں مزید کمی اور ایک نئی ’آرمز ریڈکشن ٹریٹی‘ یا تخفیف اسلحہ معاہدہ طے کرنے کی امید کے ساتھ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے رابطہ کیا تھا تاہم اوباما کے بقول،’’پوٹن روس کے اندر ترقی اور فوجی طاقت کو مضبوط تر بنانے کے تصور کے حامل ہیں اور وہ اپنی اقتصادیات کو متنوع بنانے پر تمام تر قوت صرف کر رہے ہیں، ہمیں روس کی طرف سے جوہری ہتھیاروں کی پالیسی میں وہ تبدیلیاں نظر نہیں آ رہی ہیں جس کی ہم اُمید کر رہے تھے‘‘۔
اوباما نے ایٹمی مواد کی حفاظت اور سب سے زیادہ خطرناک یورینیم اور پلوٹونیم کے سویلین استعمال کو محدود کرنے کے لیے تکنیکی اقدامات پر عالمی برادری کی توجہ مبذول کرانے کے لیے واشنگٹن منعقدہ اس سربراہی اجلاس کا بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔
انہوں نے شمالی کوریا کے اشتعال انگیز ایٹمی تجربات کے موضوع پر بھی غیر معمولی زور دیتے ہوئے اس طرف بھی توجہ مبذول کروائی۔ ایران کے حوالے سے اوباما کا کہنا تھا ’ہم نے متحد ہو کر دنیا میں موجود خطرناک ترین جوہری مواد کو ختم کر دیا ہے۔‘ اس کے باوجود اوباما کا کہنا تھا، ’’ برصغیر اور جزیرہ نما کوریا ایسے علاقے ہیں جہاں جوہری عدم پھیلاؤ کو روکنے کے لیے زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اوباما نے جوہری دہشت گردی سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بچنے کا واحد اور موئثر طریقہ جوہری مواد کو مکمل طور پر محفوظ بنانا ہے۔ اوباما کے بقول، ’’اس امکان کر رد نہیں کیا جاسکتا کہ جب کبھی ان پاگل افراد کے ہاتھ میں جوہری بم یا مواد آ گیا تو وہ اسے استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ افراد کو قتل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘