’پب جی پر پابندی ختم کرو‘ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ
18 جولائی 2020رواں ماہ کے اوائل میں پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ملک میں دنیا بھر میں مقبول گیم ’پلئیرز اَن ناؤن بیٹل گراؤنڈز‘ (پب جی) پر عارضی پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس فیصلے کی دیگر وجوحات کے ساتھ یہ گیم کھیلنے والے نوجوانوں میں خودکشی کے رجحان میں اضافہ بتایا گیا تھا۔ تاہم پی ٹی اے کے اس فیصلے نے پب جی گیم کے شائقین میں شدید غصہ پیدا کر دیا، جس میں خاص طور پر نوجوان ای اسپورٹس پلیئرز شامل ہیں۔
کیا حکومت ’ای اسپورٹس‘ کی صنعت سے ناواقف ہے؟
پاکستان کے ٹاپ ای گیمر ’ایش‘ ارسلان صدیقی نے بھی اس پابندی کی مذمت کرتے ہوئے اپنے ایک وی لاگ میں کہا کہ اس فیصلے نے نوجوانوں کی آمدن کا ایک اور دروازہ بند کردیا ہے۔ ایش کے بقول اس پابندی کے نتیجے میں پاکستانی ٹیم پب جی کے بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لے سکے۔
مزید پڑھیے: کیا ’ڈیجیٹل پاکستان‘ گیم چینجر ثابت ہو گا؟
پب جی (PUBG) موبائل گیم رواں برس مئی میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ کمانے والی گیم رہی ہے، جس نے 226 ملین ڈالر سے زیادہ رقم کمائی تھی۔ آن لائن ویڈیو گیم کے عالمی مقابلے جیتنے والی ٹیموں کو بھاری رقم کے انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر دنیا بھر میں کھیلے گئے پب جی کی گزشتہ کانٹینینٹل سیریزکے مقابلوں میں ایشیا میں فاتح ٹیم انفینٹری کو 80000 ڈالر کا انعام، یورپ کی فاتح ٹیم ’سولو مِڈ‘ 50000 ڈالر کا انعام جینتے میں کامیاب رہی جبکہ ایشیا پیسیفک مقابلوں میں کامیاب ہونے والی ٹیم ’کیو کنفرم‘ کو بھی 80000 ڈالر کا انعام دیا گیا۔ ان تمام مقابلوں میں انعامات کی کل رقم کا ہجم 600000 امریکی ڈالر بنتا ہے۔
’گیمنگ جرم نہیں ہے‘
دوسری جانب پاکستان میں اس گیم کی عارضی پابندی کے نتیجے میں گزشتہ کئی روز سے ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ UnBanPUBGPakistan ،PUBGKaJawabDou اور ChickenDinnerAtDChowk ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑی تعداد میں صارفین اپنی آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ ٹوئٹر ہر آنا نامی صارف نے لکھا، ’’پب جی پر پابندی عائد کرنا کوئی حل نہیں ہے کیونکہ پب جی کے ذریعے کمانے والے بہت سارے افراد ہیں...‘‘
وی لاگر وقار زکا نے ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ اگر پب جی پر پابندی ختم نہ کی گئی تو تمام گیمنگ برادری کی جانب سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر دھرنا دیا جائے گا۔
سماما حسن صارف نے پب جی گیم کے استعمال کے قواعد و ضوابط متعارف کرنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ سولہ سال سے کم عمر کے بچوں کے لیے پب جی کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
یہ امر اہم ہے کہ پب جی گیم کو صحت کی وجوہات کی بناء پر اردن، عراق اور نیپال سمیت متعدد دیگر ممالک میں پہلے ہی پابندی عائد ہے۔
پابندی کی وجہ، بچوں پر نفسیاتی اثرات
پاکستان میں موبائل ایپ ٹک ٹاک کے بعد پب جی گیم بھی خبروں کی زینت بنی رہی ہے۔ ایسی رپورٹیں بھی سامنے آئی تھیں کہ اس گیم کو کھیلنے والے کم از کم تین نوجوانوں نے خودکشیاں کی ہیں۔ ان نوجوانوں کے اہل خانہ کے مطابق یہ بچے پب جی گیم کے عادی تھے کو کہ گیم کے دوران ’مشن مکمل نہ کرنے‘ کا دباؤ برداشت نہ کر سکے اور اپنی جان لے لی۔ پی ٹی اے نے ان واقعات کو پابندی کی اہم وجہ قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: کمپیوٹر گیم میں شامی جنگ کے حقیقی مناظر
واضح رہے پی ٹی اے کا پب جی پر پابندی کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج ہو گیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل چودہ جولائی کے روز اس درخواست کی سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔